ہر عالم میں حیات کی نوعیت جدا جدا ہے

   

موت سے وجود ختم نہیں ہوتا ، موت کے فرشتے کی رسائی انسان کے مرکز وجود تک نہیں ہے ،مرنے کے بعد بھی حیات انسانی کا تسلسل جاری رہتا ہے ۔ عالم برزخ میں انسان حشر تک رہتا ہے ، مرنے کے کچھ عرصہ بعد تک اس کی دلچسپی عالم اجسام سے باقی رہتی ہے لیکن رفتہ رفتہ یہ دلچسپی کم ہوتے ہوتے ختم ہوجاتی ہے ۔ پھر وہ اسی عالم برزخ کا ہوکر رہ جاتا ہے ۔ جب عالم ارواح کی ساری روحیں عالم اجسام میں آجائیں اور جب اﷲ کو اس دنیا ، اس عالم اجسام کو ختم کرنا اور نظم کائنات کو درہم برہم کرنا منظور ہوگا تو یہ سارا عالم اجسام ، تمام نظام کائنات درہم برہم کردیا جائے گا اور قیامت آجائے گی جس کی کیفیت قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر بارہا بیان ہوئی ہے اور جس کو قیامت کہا جاتا ہے ۔
عالم برزخ کے بعد چوتھا عالم ’عالم آخرت ‘ ہے ۔ برزخ سے آخرت میں منتقل ہونے کا طریقہ کار حشر کا برپا ہونا ہے ۔ سورۂ زلزال اور سورۂ عادیات وغیرہ میں اس کی کیفیت بیان ہوئی ہے ۔ صور پھونکا جائے گا اور سارے انسان میدان حشر میں پہنچ جائیں گے پھر حساب کتاب کے بعد لوگوں کے بارے میں جنت اور دوزخ کا فیصلہ ہوگا ۔ دوزخ میں جانے والوں میں سے جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان ہوگا ، اس کو دوزخ سے نکال کر جنت میں پہنچادیا جائے گا اور جو ایمان سے بالکل محروم منکرین حق ہوں گے وہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے ۔
یہ اہل دوزخ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے ۔ (حشر۶۴:۱۰)
اسی طرح جو لوگ جنت میں جائیں گے وہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے ۔ (نساء ۴:۱۲۲)
عزیزانِ محترم ﷺ اس تفصیل سے آپ نے یہ بات اچھی طرح سمجھ لی ہوگی کہ حیاتِ انسانی چار عالموں پر محیط ہے اور ختم ہونے والی نہیں ہے ۔ ہم اب بھی زندہ ہیں، مرنے کے بعد زندہ رہیں گے ہر عالم میں حیات کی نوعیت جدا جدا ہے ۔
انتقال بطریق ولادت
انتقال بطریق موت
انتقال بطریق حشر
(۱)
(۲)
(۳)
(۴)
عالم ارواح
عالم اجسام
عالم برزخ
عالم آخرت
مجرد روحیں
(جسم نہیں)
روح + مادی جسم
روح+ مثالی جسم
انتظار گاہ
روح + جسم
دارالجزاء

دارالعمل
ثواب و عذاب
جنت + دوزخ
انتظار گاہ
دارالامتحان
یہیں سے شروع
ابدی زندگی
مرنے والے کا غم اس بات سے نہیں ہوتا کہ اس کی زندگی ختم ہوگئی یا وہ فنا ہوگیا ، نہیں وہ فنا نہیں ہوتا ، وہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا ۔ غم صرف اس بات کا ہے کہ وہ ہم سے بچھڑ گیا ، اس کے لئے دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کرتے رہیں اس سے مرنے والے کو فائدہ پہنچتا ہے، اگر خدانخواستہ کسی گناہ کی وجہ سے اس کو عذاب ہورہا ہو تو دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کی وجہ سے وہ عذاب ختم ہوجاتا ہے اور اگر وہ نیک ہے ، اس کو کوئی عذاب نہ ہورہا ہو تو دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کی وجہ سے اس کے درجات بلند کردیئے جاتے ہیں ۔ اس طرح ہر دو صورتوں میں وہ دعائے مغفرت اور ایصال ثواب کا ضرورت مند اور منتظر رہتا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو دین کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔