ہندوستان اورپاکستان کے مابین بہتر تعلقات ممکن ہیں۔ جسٹس مارکنڈے کاٹچو

,

   

اگر ہندو پاک کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہوگئے تو یہ قدم ہندو پاک کے دوبارہ متحدہونے کی طرح ہوگا

جہانگیر کھٹک کا مضمون ”کیا ہندوستان کے ساتھ الیکشن کے بعد کشیدگی میں کئی ائے گی“ جو کہ پاکستان کے انگریزی روزنامہ ڈیلی ٹائمس میں شائع ہوا ہے کہ مضحکہ خیز ہے۔

وہ لکھتے ہیں ”خلوص اور قابل توثیقکاروائی پر مبنی امن کی شراکت داری ہی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی کیلئے سب سے بہتر امید ہے۔

دونوں ممالک کی باہمی تجارت میں اضافہ بھی ایک ایسا مفید راستہ ہے جس سے ہندوستان اور پاکستان امن پیدا کرسکتے ہیں“یہ دلیل اگر چہ ظاہری طور پر معقول ہے۔

لیکن یہ حقیقت سے بعید او راحمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔

یہ دلیل پاکستان کے قیام کے دوجوہات کو نظر انداز کرتی ہے۔

اول متحدہندوستان کو ایک بڑی صنعت کے طور پر نہیں ابھرنا چاہئے جوکہ صنعتی ممالک کا سب سے بڑا حریف بن جائے اور دو ئم برصغیر ہندو پاک غیر ملکی اسلحوں کا بازار ربنارہے۔

جہاں تک پہلی درجہ کا تعلق ہے یہ ذکر کرنا مناسب ہے کہ ہندوتان میں روشن مستقبل کے حامل انجینئرز اور سائنسدانوں وغیرہ کی بڑی تعداد میں ہیں او رمغربی ممالک کی

یونیورسٹیوں میں متعدد ہندوستانی انجینئرنگ کے پروفیسر سائنسدان او رریاضی داں موجود ہیں اور اس کے ساتھ ہندوستان پہلے ہی امکانی طور پر (اگرچہ حقیقی طور پر نہیں)ایک بڑا

صنعتی ملک ہے اور ہم اپنی سستے لیبر کی وجہہ سے صنعتی ممالک کے مقابلے مصنوعات آدھی سے کم قیمت پر فروخت کرسکتے ہیں۔صنعتی ممالک کی مصنوعات کو ن خریدے گا

اگر ہندوستانی صنعتوں نے اسے آدھی سے کم قیمت پر فروخت کرنا شروع کردیا؟۔

کیاایسے میں ان کی صنعتیں بند نہیں ہوجائیں گی جس سے لاکھوں بے روزگار ہوجائیں گے۔

جہاں تک دوسری وجہ کا تعلق ہے تو اسلحہ کی صنعت اربوں ڈالر کی صنعت ہے او ربرصغیر ہندوپاک غیرملکی اسلحے کے سب سے بڑے خریداروں میں سے ہے۔

اس رقم کا استعمال ہمارے اپنے عوام کی فلاح وبہبود پر ہوسکتا ہے۔ ایسے میں اگر ہندوپاک کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہوگئے ہیں تو یہ قدم ہندو پاک کے درمیان اچھے تعلقات قالم

ہوگئے تویہ قدم ہندو پاک کے دوبارہ متحد ہونے کی طرح ہوگا اور یہ وہ بات ہے جس کی اجازت ہمیں آپسمیں تقسیم کرنے والے کبھی نہیں دیں گے‘ کیونکہ اس سے ان کے مفادکو نقصان پہنچے گا۔

اس لئے مداری کی طرح جو بند کو نچاتا ہے اور اس کے کھیل دکھاتا ہے‘ صنعتی ممالک ہندوستا ن او رپاکستان کو ایک دوسرے کے خلاف اپنے مقامی ایجنٹوں کے ذریعہ فرقہ واریت او رذات پات کو مہمیز دے کرمحاذ آرا رکھنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔

باہمی تجارت میں اضافہ معاشی اتحاد کی جانب سے ایک قدم ہے جو سیاسی اتحاد کی جانب قدم میں تبدیل ہوسکتا ہے

او ریہ وہ بات ہے جس کی صنعتی ممالک کبھی اجازت نہیں دیں گے۔ اس لئے یہ محض بس ایک خواب تمنا ہے۔