ہندپاک میاچ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہورہا ہے

,

   

ایک ٹیم جو11ممبرس پر مشتمل ہوتی ہے اسکی ہار ہوئی ہے مگر صرف اس شکست کے لئے ایک فرد کو نشانہ بنایاجارہا ہے
حیدرآباد۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے کہاتھا کہ ”کھیل کھیلا کھیل کے جذبے کے ساتھ“۔

ایسا ہمیشہ کہاجاتا ہے کہ کھیل ہمیشہ کھیل کے جذبے کے ساتھ ہوتا ہے ’کھیل کا جذبہ‘ وہ عمل ہے جس میں خندہ پیشانی کے ساتھ کسی کی کامیابی کو تسلیم کرنا ہے۔

اکٹوبر 24کے روز مذکورہ کھیل کا جذبہ میدان میں اس وقت نظر آیاجب ہندوستانی کپتان ویراٹ کوہلی کو پاکستانی ہم منصب بابر اعظم اور محمد رضوان کو دوبئی میں ٹی 20عالمی کپ کے میاچ میں 10وکٹوں سے جیت حاصل کرنے کے بعد نہ صرف ہاتھ ملایا بلکہ گلے بھی لگایاتھا۔

تاہم اس کے برعکس ہندوستان میں مذکورہ دونوں روایتی حریفوں کے درمیان میاچ ہندوستان میں رہنے اور بسنے والے 200ملین مسلمانوں کی حب الوطنی کا پیمانہ طئے کرنے والے سامان بن اور یہ کہ مذکورہ کمیونٹی سے اکثر ان کی وفاداری پر سوال کھڑا کئے جاتے ہیں اور پڑوسی ملک کی حمایت کرنے کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں۔

کرکٹ کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ نیلے رنگ والے لوگوں نے پاکستان کے ساتھ ورلڈ کپ میں کوئی میاچ ہارا ہے۔ایک ٹیم جو11ممبرس پر مشتمل ہوتی ہے اسکی ہار ہوئی ہے مگر صرف اس شکست کے لئے ایک فرد کو نشانہ بنایاجارہا ہے۔

سوشیل میڈیا پر محمد شامی کے ساتھ بدسلوکی کی گئی جو ہندوستان کی موجودہ ٹی 20ٹیم میں واحد مسلم کھلاڑی ہیں۔ شامی پر دھوکہ دینے والا اور غداری کرنے والے کا لیبل لگا ہے۔

اس گیند باز کو شدید فرقہ وارانہ فقروں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور کئی نے انہیں ’پاکستان جانے‘کو تک کہہ دیا ہے۔میاچ کی شروعات سے قبل ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ ہندوستانی ٹیم ”بلیک لائیوز میٹر“ کے زمرے میں ائی گی مگر کسی ایک کی شبہہ کو متاثر کرنے کے دوران وہ خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے۔

جب کبھی ملک میں اقلیتوں کے ساتھ مظالم ہوتے ہیں تو خامو ش رہنا درحقیقت ہندوستانی کرکٹ ٹیم کی ایک تاریخ رہی ہے۔

حالانکہ بہت سارے موجودہ اور سابقہ کرکٹرس نے سوشیل میڈیا پر شامی کی حمایت کی ہے مگر وہ ان کی مسلم شناخت کے مرکزی مسلئے کو پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں جس کی وجہہ سے گیند باز کونشانہ بنایاگیاہے۔

اسی طرح پاکستان کے ہاتھوں ہندوستان کی شکست کے بعد جموں کشمیر سے تعلق رکھنے والے 16اسٹوڈنٹس جو پنجاب کی دو یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں یوپی او ربہار سے تعلق رکھنے والے اسٹوڈنٹس نے مار پیٹ کی ہے۔

وہیں جن طلبہ کے ساتھ مار پیٹ کی گئی ہے وہ یہ کہتے ہوئے دیکھائی دے رہے ہیں ”ہم یہاں پر تعلیم حاصل کرنے ائے ہیں اور ہم بھی ہندوستانی ہیں“۔

دو دن بعد27اکٹوبر کو اترپردیش پولیس نے پاکستان کی ہندوستان پر ٹی20عالمی کپ میں جیت کے بعدپٹاخے جالانے او رجشن منانے کے الزام میں 7لوگوں پر ایک مقدمہ درج کیاہے۔ ایک کے بعد دیگر اس طرح کے واقعات جس میں پاکستان کی جیت پرجشن منانے کے الزامات‘ جارحانہ کاروائی‘ مار پیٹ او رمقدمات کے اندراج کے معاملات سامنے ائے ہیں۔


ملک بھر میں اس طرح کے واقعات ہوئے ہیں
راجستھان کے ایک خانگی اسکول کی ایک ٹیچر نفیسہ عطاری کو اس وجہہ سے اسکول سے نکال دیاگیا اور ان پر مقدمہ درج کیاگیا کیونکہ مبینہ طور پر انہوں نے پاکستان کی ہندوستان پر جیت کے پیش نظر جشن پر مشتمل واٹس ایپ اسٹیٹیس رکھا تھا۔

اس کے علاوہ انہیں اسی وقت گرفتاربھی کرلیاگیاتھا۔

یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ راجستھان میں کانگریس کی حکومت ہے یہ وہ پارٹی ہے جو ترقی پسند اور آزاد سونچ کی پارٹی ہے۔

اودئے پور کے نیراجہ مودی اسکول کی ایک ٹیچر نے پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ ایک تصویر پوسٹ کی جس کا کیپشن تھا ”جیت گئے“ جب ان کے واٹس ایپ اسٹیٹس کا اسکرین شاٹ وائرل ہوا تو اسکول انتظامیہ نے انہیں ملازمت سے برطرف کردیا۔

اکٹوبر25کے روز اگرہ میں ایک انجینئر نگ کے تین بی ٹیک اسٹوڈنٹس جس کا تعلق کشمیر سے ہے ہندوسان کی شکست کے بعد اپنے اپنے سوشیل میڈیا پر مبینہ ”مخالف ملک چیاٹس“ شیئر کرنے اور موافق پاکستان نعرے لگانے کے الزامات کے تحت برطرف کردیاگیاہے۔

مذکورہ جموں کشمیر پولیس نے یو اے پی اے کے تحت شیر کشمیر انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس اور سرکاری میڈیکل کالج کے اسٹوڈنٹس‘ کالج انتظامیہ اور ہاسٹل وارڈن کے خلاف مبینہ طور سے ٹی 20عالمی ورلڈ میں پاکستانی ٹیم کی جیت کے بعد جشن منانے اور ”موافق پاکستان نعرے لگانے“ پر مقدمہ درج کیاہے۔

مسلسل مخالف مسلم جرائم جس کو میں مسلم ملازمین کے کھانے اور ان کے کپڑوں کے انتخاب او ر ان کے رہن سہن کے حوالے سے نشانہ بنانے کے بڑھتے واقعات آج کے ہندوستانی سماج میں اسلام فوبیا کی تیزی سے داخلے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

یہ اکثریتی کمیونٹی کی خاموشی کا نتیجہ ہے‘ بالخصوص ان لوگوکی خاموشی جو طاقت اور اختیار رکھتے ہیں نفرت کو پھیلنے میں مددگار ثابت ہورہی ہے۔

ایک دوسری پر جب تک شہری بات کرناشروع نہیں کردیتے ہیں اس قسم کے واقعات کا سدباب ممکن نہیں ہے۔

اکثر ہندوستانی کرکٹ شائقین بھی دوسری ممالک کی حمایت کرتے ہیں۔ کیاہوا اگر کوئی ہندوستان ہندو بمقابلہ آسڑیلیا کے میاچ میں آسڑیلیا کی حمایت کرتا ہے؟ کیا اسی بھی ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑیگا؟۔