ہند چین تعلقات معمول پر نہیں ہیں۔ جئے شنکرکا ایس سی او اجلاس میں بیان

,

   

جئے شنکر نے مزیدکہاکہ ”میں یہ واضح کردیتاہوں‘ عوامی سطح پر بھی‘ ہندچین تعلقات معمول پر نہیں ہیں اور امن واستحکام سرحدی علاقو ں جہاں مشکل حالات ہیں اگر نہیں ہوتا ہے تو تعلقات معمول پر بھی نہیں ائیں گے“


پانجی۔ہند چین سرحد معاملا ت پر اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے وزیرامور خارجہ ایس جئے شنکر نے دوبارہ یہ واضح کردیاکہ جب تک حقیقی خط قبضہ(ایل او سی) پر امن واستحکام برقرارنہیں ہوتا ہے اس وقت تک دونوں ممالک کے تعلقات میں معمول پر نہیں آسکتے ہیں۔

شنگھائی کواپریشن آرگنائزیشن (ایس سی او) کے تحت منعقد ہونے والے خارجی منسٹرس اجلاس کے اختتام پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایس جئے شنکر سے کہاگیاکہ چین کے وزیر خارجہ کن گینگ کے ساتھ بات چیت کی تفصیلات بتائیں۔اس پر ای ایے ایم نے جواب دیا کہ ”یہ معاملہ سرحد سے متصل سرحدی علاقوں میں ایک غیرمعمولی پومیشن اختیار کئے ہوئے ہے۔

اس پر ہماری واضح بات چیت ہوئی ہے‘ ہمیں علیحدگی کے عمل کو آگے بڑھانا ہے۔ میں یہ واضح کردیتاہوں‘ عوامی سطح پر بھی‘ ہندچین تعلقات معمول پر نہیں ہیں اور امن واستحکام سرحدی علاقو ں جہاں مشکل حالات ہیں اگر نہیں ہوتا ہے تو تعلقات معمول پر بھی نہیں ائیں گے“۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ”میں اس بارے میں بہت مستقل رہاہوں‘ اور میں نے اس میٹنگ میں بھی اپنا موقف تبدیل نہیں کیاہے“۔چین پاکستان اقتصادی رہداری کے متعلق جئے شنکر نے کہاکہ ”دومرتبہ یہ بہت واضح ہوگیاہے کہ تعلقات ترقی کے لئے بہتر ہیں‘ لیکن اس سے ممالک کی سالمیت اور خود مختاری کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی ہے“۔

جئے شنکر نے مزید کہاکہ ”یہ ہمارا دیرینہ موقف رہا ہے اور کسی کوبھی اس پر کوئی شک نہیں ہوناچاہئے اور میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ اس کمرے میں کسی کوبھی اس پر کوئی شک نہیں ہے۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے“۔ پڑوسی ملک میں موجودہ معاشی بحران کی وجہہ سے پاکستان میں چین کی سی پی ای سی پراجکٹس سست روی کاشکار ہیں۔

فارن پالیسی کی خبر ہے کہ پاکستان انفرسٹکچر پراجکٹس کی تکمیل میں سست روی اختیار کی ہے او رچین نئے فنڈس دینے میں سستی دیکھا رہا ہے۔

رپورٹ میں ایک کیس کاحوالہ دیتے ہوئے کہاگیاہے کہ ایک ری ایکٹر جس کا افتتاح فبروری میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے کیاتھا‘ چین نے پاکستان کے انرجی سکیورٹی کو مضبوط بنانے کے لئے فنڈ فراہم کیاتھا۔

اس ریکٹر پر کام 2016 میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی)کے آغاز کے بعد شروع کیاتھا۔سی پی ای سی منصوبوں کی سست رفتاری نہ صرف پاکستان میں جاری معاشی بحران کی وجہہ سے ہے کیونکہ وہ اس پردئے گئے قرضوں کامتحمل نہیں ہوسکتا بلکہ بیجنگ کی اپنی معاشی سست روی بھی اسکاحصہ ہے۔