یقیناً ہم نے آپ کو شاندار فتح عطا فرمائی ہے۔

   

یقیناً ہم نے آپ کو شاندار فتح عطا فرمائی ہے۔ تا کہ دور فرما دے آپ کے لیے اللہ تعالیٰ جو الزام آپ پر (ہجرت سے) پہلے لگائے گئے … (سورۃ الفتح ۱۔۲) 
اگرچہ بعض روایات میں اس فتح مبین سے مراد فتح مکہ بیان کی گئی ہے اور بعض حضرات نے اس سے مراد فتح خیبر لی ہے۔ لیکن صحیح قول یہ ہے کہ اس فتح مبین سے مراد صلح حدیبیہ ہے ۔ چنانچہ امام زہری لکھتے ہیں: صلح حدیبیہ ایک عظم الشان فتح تھی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس موقع پر صرف چودہ (۱۴) صحابہ حضور (ﷺ) کے ہمرکاب تھے۔ صلح کے بعد لوگوں نے آنا جانا شروع کر دیا۔ اس طرح انہیں اللہ تعالیٰ کے دین کے بارے میں جاننے اور سننے کے مواقع میسر آئے اور جس نے اسلام لانے کا ارادہ کیا وہ بآسانی اسلام لے آیا ۔ صرف دو سال کے عرصہ کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مکہ فتح کرنے کے لیے جب تشریف لائے تو دس ہزار جانباز حضور (ﷺ) کے ہمرکاب تھے۔(قرطبی) بظاہر اس آیت کا مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم (ﷺ) کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیئے ہیں۔ عفو و غفران کا مژدہ بجا، لیکن اس سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ حضور (ﷺ) سے گناہوں کا صدور پہلے بھی ہوتا رہا اور بعد میں بھی ہوتا رہے گا (العیاذ باللہ) حالانکہ اس عقیدہ پر امت کا اجماع ہے کہ ہر نبی خصوصاً نبی الانبیاء ، سید المرسل (ﷺ) معصوم ہیں۔ حضور (ﷺ) کے دامن عصمت پر گناہ کا کوئی داغ نہیں ہے۔ … جاری ہے