یوپی۔ گورکھ ناتھ مندر کے قریب رہنے والے مسلم حاندانوں سے مکانات خالی کرنے کا استفسار

,

   

درایں اثناء‘اگر کوئی مسلم اس پرمٹ پر دستخط نہیں کرتا ہے تو ان پر دباؤ کے مختلف حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔
بتایاجارہا ہے کہ اترپردیش کے گورکھپورمیں کئی مسلم خاندانوں سے گورکھ ناتھ مندر کی سکیورٹی کا حوالہ دح کر انتظامیہ نے مکانات خالی کرنے کا استفسار کیاہے۔

مقامی اطلاعات کے بموجب ان خاندانوں سے ’رضامندی کے لیٹر“ پر دستخط کرنے کو کہاگیاہے جس میں کہاگیاہے کہ وہ اپنے مکانا ت او راراضی حکومت کے حوالے کرنے کے لئے رضامند ہیں۔

مزید اس کے لئے مکتوب میں یہ بھی کہاگیاہے کہ یہ اقدام مندر کی جگہ کو محفوظ بنانے کے لئے کیاگیاہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق گورکھ ناتھ مندر کے جنوبی حصہ کے قریب 11مسلم خاندان رہتے ہیں اور نو نے پہلے ہی رضامندی کے ایک مکتوب پر ہندوشدت پسندوں کے دباؤ میں دستخط کردی ہے

درایں اثناء‘اگر کوئی مسلم اس پرمٹ پر دستخط نہیں کرتا ہے تو ان پر دباؤ کے مختلف حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔

ایک مقامی مسلمان 71سالہ جاوید اختر نے الجزیرہ کو بتایاکہ”عہدیداروں نے ہمیں بتایاہے کہ اگر ہم اس لیٹر پر دستخط نہیں کرتے ہیں تو وہ دستخط کرانے کے لئے دوسرا راستہ اختیارکریں گے۔

ہم پر دباؤ ڈالا جائے گا“۔ اتفاق کی بات تو یہ ہے کہ اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ جس گورکھ ناتھ مندر کے صدر پجاری‘ مہنت‘ ہیں۔

گورکھپور ڈی ایم کے وجیندر پانڈیان نے چہارشنبہ کے روز ایک دہلی نژاد صحافی کو اس وقت قومی سلامتی ایجنسی کے تحت مقدمہ درج کرنے کی دھمکی دی تھی جب اس صحافی نے پانڈیان سے گیارہ مسلم خاندانوں ”جبری بے دخلی“ سے متعلق ایک اسٹوری پر سرکاری بیان دینے کو کہاتھا۔

مسیح الزماں انصاری جو انڈیا ٹومارو ڈاٹ کام نامی ایک نیوز پورٹل کے لئے کام کرتے ہیں نے نیشنل ہیرالڈ کو بتایاکہ پانڈین نے ان سے ان کے مذہب کے متعلق جانکاری حاصل کی اور پھر ”ذلیل کرنے والے انداز“ کے ساتھ انہیں دھمکی دی کہ وہ ”دوگرہوں کے درمیان تصادم کی صورتحال پیدا کرنے“ کے حوالے سے ان پر این ایس اے نافذ کردیں گے۔

اس پر ردعمل پیش کرتے ہوئے اترپردیش میں اپوزیشن کانگریس کے اقلیتی محکمہ کے چیرمن شہنواز عالم نے کہاکہ ”عہدیداروں کے خلاف کاروائی کرنے کے بجائے مذکورہ ریاستی حکومت ان صحافیوں کو این ایس ایے کے تحت مقدمہ درج کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں“۔

عالم نے کہاکہ ”صحافت جمہوریت کا چوتھا ستون ہے۔

صحافت کا کام حکومت سے سوال کرنا ہے او رحکومت کا کام صحافت اور عوا م کو جواب دینا ہے۔ بی جے پی حکومت میں کوئی محفوظ نہیں ہے‘ چاہئے وہ عام آدمی رہے یاپھر صحافی۔ کیسے جمہوریت باقی رہے گی اگر منتخب حکومت مسلسل اسی طرے کا کام کرے گی؟“۔