یوکرین کا روس کے ساتھ مذاکرات سے انکار

,

   

پھرشدت سے حملے شروع کرنے روس کا اعلان۔روسی حملے میں 198 افراد ہلاک، سینکڑوں زخمی ہونے کی اطلاع
کیف:روسی صدارتی محل (کریملن) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق یوکرین نے مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کرکے تنازعہ کو طول دیا ہے جس کے بعد روسی فوج نے اپنی پیش قدمی دوبارہ شروع کردی ہے۔کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے آج میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ ’متوقع مذاکرات کے پیش نظر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کل روس کے مرکزی فوجی دستوں کو پیش قدمی روکنے کے احکامات دیے تھے تاہم اب چونکہ یوکرین نے مذاکرات سے انکار کردیا ہے لہٰذا آج دوپہر سے فوجیوں کی پیش قدمی دوبارہ شروع کردی گئی ہے۔‘خیال رہے کہ گزشتہ روز روسی فوجی یوکرین کے دارالحکومت کیف میں داخل ہوچکے تھے اور پارلیمنٹ کی عمارت سے محض 9 کلو میٹر کے فاصلے پر موجود تھے تاہم پیوٹن نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی اور اپنے اتحادی ملک بیلاروس میں مذاکراتی وفد بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔گزشتہ روز ہی اپنے بیان میں پیوٹن نے کہا تھا کہ یوکرینی فوج حکومت کا تختہ الٹ دے اور یوکرینی حکومت کے نمائندوں کو دہشت گرد، نشے کے عادی اور ہٹلر کے پیروکار قرار دیا تھا۔ یوکرین کے صدر ولودومیر زیلینسکی بھی بار ہا مذاکرات کی اپیل کرتے رہے ہیں اور جب روسی فوجی کیف کے قریب پہنچے تو زیلینسکی نے پیوٹن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں ایک بار پھر روسی صدر سے کہنا چاہتا ہوں کہ یوکرین بھر میں لڑائی جاری ہے، آئیے مل کر بیٹھتے ہیں اور جانوں کے ضیاع کو روکتے ہیں۔‘یہ واضح نہیں کہ جب یوکرینی صدر مذاکرات کے حامی ہیں تو پھر روس کی مذاکرات کی پیشکش کیوں مسترد کی گئی۔یوکرینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ یوکرین پر روسی حملے میں 3 بچوں سمیت 198 یوکرینی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ 33 بچوں سمیت ایک ہزار سے زائد افراد زخمی بھی ہیں۔یوکرین پر روسی حملے میں ہلاک و زخمی یوکرینی شہری ہیں یا فوجی اس حوالے سے یوکرینی وزارت صحت نے واضح نہیں کیا۔

یوکرین میں مارشل لا کا نفاذ ، ہر طرف دھماکوں کی گونج
پُر امن شہر حملوں کی زد میں، عالمی قائدین کا روس سے فوج کشی ختم کرنے کا مطالبہ

کیف۔ روس کی افواج نے جمعرات کو یوکرین پر حملہ کرتے ہوئے دارالحکومت کیف سمیت دیگر شہروں کو نشانہ بنایا ہے۔روسی حملے کے بعد یوکرین کے صدر ولاد میر زیلنسکی نے ملک میں مارشل نافذ کر دیا ہے۔ صدر پوٹن نے جمعرات کو مقامی ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے اپنے خطاب میں یوکرین میں ملٹری آپریشن کا اعلان کیا اور دیگر ملکوں کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے اس معاملے میں مداخلت کی کوشش کی تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔ صدر پوٹن نے یوکرین کے علاقے ڈونباس پر فوج کی چڑھائی کا اعلان کیا۔ اسی اثنا میں دارالحکومت کیف، خرکیف اور اڈیسہ میں دھماکوں کی آوازیں بھی سنی گئیں۔ روسی صدر نے یوکرین کی فوج سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اپنے ہتھیار پھینک دے اور گھروں کو واپس لوٹ جائے۔ ان کے بقول روس یوکرین پر قبضہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن مشرقی یوکرین میں سویلین آبادی کے تحفظ کے لیے یہ حملہ ضروری تھا۔ پوٹن یالزام عائد کیا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ماسکو کی جانب سے پیش کردہ سیکیورٹی یقین دہانی اور یوکرین کو ناٹواتحاد سے دور رکھنے کے روسی مطالبے کو نظر انداز کر رہے تھے۔ یوکرین کے صدر نے ملک بھر میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ روس نے یوکرینی فوج کی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے اور ملک بھر میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔ انہوں نے یوکرین کے عوام سے کہا کہ وہ گھروں میں ہی رہیں اور خوف کا شکار نہ ہوں۔ یوکرین نے مسافر طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی ہے جب کہ یورپین ایوی ایشن ریگولیٹرز نے بھی خبردار کیا ہے کہ روس اور بیلاروس کے سرحدی علاقوں میں فوجی طیاروں کی پروزاوں کی وجہ سے فضائی حدود استعمال کرنے سے گریز کیا جائے۔ یوکرین کے وزیرِ خارجہ دیمیترو کولیبا نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ روس نے یوکرین پر بڑے پیمانے پر حملہ کر دیا ہے اور یوکرین کے پرامن شہر حملے کی زد میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ جارحیت کی جنگ ہے اور یوکرین اپنا دفاع کرے گا اور یہ جنگ جیتے گا۔ یوکرین کے وزیرِ خارجہ نے مزید کہا کہ بین الاقوامی برادی پوٹن کو روکیں اور وقت آگیا ہے کہ دنیا عملی اقدام کرے۔ دوسری جانب امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے روس کے اقدام کو یوکرین پر اشتعال انگیز اور غیر منصفانہ حملہ قرار دیا اور کہا کہ بین الاقوامی برادری روس کا احتساب کرے گی۔ صدر بائیڈن نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ یوکرین کے صدر زیلنسکی سے ان کی بات ہوئی ہے جس کے دوران انہوں نے روس کی فوج کے حملے کی مذمت کی ہے۔ صدر بائیڈن نے کہا کہ جی سیون ممالک کے قائدین بات چیت کے بعد وہ جمعرات کو قوم سے خطاب کا ارادہ رکھتے ہیں۔ برطانیہ کے وزیرِ اعظم بورس جانسن نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ صدر پوٹن نے یوکرین پر حملہ کر کے قتل و غارت اور تباہی کے راستے کا انتخاب کیا ہے۔ ان کے بقول برطانیہ اور اس کے اتحادی فیصلہ کن انداز میں اس کا جواب دیں گے۔