یہ جو ملاتے پھرتے ہو تم ہر کسی سے ہاتھ

,

   

کورونا ویکسین…علاج نہیں محض تجربہ
کسان احتجاج کمزور کرنے سپریم کورٹ کا سہارا
مسلمان دہشت گرد … کسان خالصتانی

رشیدالدین
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ملک میں ٹیکہ اندازی مہم کا زور و شور کے ساتھ آغاز ہوگیا ۔ یوں تو دنیا کے کئی ممالک میں ویکسین کی ٹیکہ اندازی کا عمل جاری ہے لیکن ہندوستان میں ویکسین کی دھوم تمام ممالک سے زیادہ ہے ۔ ایسے ممالک جو کورونا سے زیادہ متاثر ہوئے ، انہوں نے عوامی زندگی کے تحفظ کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے خاموشی کے ساتھ ٹیکہ اندازی کا آغاز کیا لیکن نریندر مودی حکومت اسے عوام پر احسان کی طرح پیش کر رہی ہے۔ ویسے بھی نریندر مودی ہر لمحہ کو چاہے وہ خوشی ہو یا غم سیاسی فائدہ اور شہرت کیلئے استعمال کرنے کے ماہر ہیں ۔ کورونا کے عروج کے زمانے میں جب روزانہ سینکڑوںکی تعداد میں عوام لقمہ اجل بن رہے تھے اور متاثرہ خاندانوں میں کہرام مچا ہوا تھا ، مصیبت کی اس گھڑی میں عوام کو ڈھارس دینے کے بجائے مودی نے مختلف کھیل کھیلے۔ تالی ، تھالی اور دیا جلاکرکورونا کو بھگانے کا بچوںکی طرح مذاق کیا ۔ موقع چاہے کچھ ہو مودی کو سرخیوں میں رہنا تھا ۔ اب جبکہ کورونا کیسس میں قابل لحاظ کمی واقع ہوئی ہے اور ریکوری کی شرح 97 فیصد تک پہنچ گئی ۔ حکومت ویکسین کی ٹیکہ اندازی کو کسی ایونٹ کی طرح پیش کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ جیسے ہندوستان کو کورونا سے نجات مل گئی اور اس کا سہرا نریندر مودی کے سر ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ کورونا کے علاج کے طور پر یہ ویکسین نہیں ہے بلکہ بچاؤ کے لئے حفظ ماتقدم کے طور پر ہے۔ اگر ویکسین علاج ہوتا تو مریضوں کو ٹیکہ دیا جاتا لیکن یہاں تو صحتمند افراد کو ویکسین کی خوراک دی جارہی ہے۔ ویکسین تیار کرنے والے کسی بھی ادارے نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ویکسین کورونا کا علاج ہے۔ اگر واقعی ویکسین وائرس کا خاتمہ کرنے کی صلاحیت رکھتی تو پہلے مریضوں کو دیا جاتا۔ ٹیکہ اندازی کی مہم جوکھم بھرا عمل ہے کیونکہ ویکسین کے ری ایکشن کے امکانات کو سائنسدانوں نے خارج نہیں کیا ہے۔ ایسے وقت جبکہ ملک میں مریضوں کی تعداد تیزی سے گھٹ رہی ہے، ٹیکہ اندازی کی دھوم دھام کی آخر ضرورت کیا تھی ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ویکسین تیار کرنے والی کمپنیوں کا کاروبار بڑھانے کی کوشش ہو۔ صحت مند افراد کو 28 دن کے وقفہ سے دو خوراک دیئے جائیں گے اور دوسری خوراک کے 14 دن بعد ویکسین کے اثر کا آغاز ہوگا ۔ یہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ویکسین علاج نہیں بلکہ محض احتیاطی نسخہ ہے۔ دوائی کے استعمال سے قبل درکار تجربات کے مراحل کی تکمیل کے بغیر عجلت میں ویکسین عوام کے لئے پیش کردی گئی ۔ پہلے مرحلہ میں ہیلت ورکرس ، صفائی کرم چاری اور فرنٹ لائین واریئرس کو خوراک دی جارہی ہے جبکہ سیاستدانوں نے خود کو دور رکھا ہے۔ اگر واقعی ویکسین بھروسہ مند ہو تو وزیراعظم نریندر مودی کو پہلا ٹیکہ لے کر مہم کا آغاز کرنا چاہئے تھا۔ حکومتوں میں شامل افراد اور سیاستداں کوئی رسک لینا نہیں چاہتے اور تجربہ کے لئے ہیلت ورکرس کو آگے کردیا گیا۔ تلنگانہ کے وزیر صحت راجندر نے پہلا ٹیکہ لینے کا اعلان کیا تھا لیکن وہ اپنے اعلان سے منحرف ہوگئے اور صفائی کرمچاری کو پہلی خوراک دی گئی ۔ ظاہر ہے کہ بڑے لوگ ہمیشہ عام آدمی اور غریبوں کو تختہ مشق بناتے ہیں۔ پہلے مرحلہ میں دوائی کی خوراک لینے والے ہیلت ورکرس اور صفائی کرمچاریوں سے ہم نیک تمنائیں وابستہ کرتے ہیں۔ طبی ماہرین نے واضح کردیا ہے کہ عوام ویکسین کو راہِ نجات نہ سمجھیں ۔ ویکسین کوئی آبِ حیات یا سنجیونی نہیں ہے کہ استعمال کے ساتھ ہی مرض غائب ہوجائے ۔ یہ تو صرف تجربہ ہے اور مختلف ممالک میں ری ایکشن کے واقعات کو دیکھتے ہوئے نہ صرف حکومت بلکہ عوام کو چوکس رہنا ہوگا ۔ ری ایکشن کی صورت میں علاج کا ہنگامی منصوبہ حکومت تیار رکھے۔ گزشتہ 8 ماہ کے دوران کورونا سے لڑائی میں یہ ثابت ہوگیا کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے ۔ کیسس میں کمی کا سہرا حکومت سے زیادہ عوام کے سر جاتا ہے جنہوں نے دوائی کے بغیر ہی چوکسی کے ذریعہ کورونا کو شکست دی ۔ ویکسین کے نام پر عوام احتیاطی تدابیر کے سلسلہ میں ہرگز غفلت کا شکار نہ ہوں۔

دنیا کے کئی ممالک میں دوسری اور تیسری لہر آچکی ہے۔ کورونا کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں تھا کہ برطانیہ اور افریقہ میں نیا وائرس تباہی بن کر ٹوٹ پڑا ہے۔ ایسے میں ہندوستان کو حفظ ماتقدم کے طور پر احتیاط برقرار رکھنی ہوگی ۔ دنیا کو کورونا سے مکمل نجات نہیں ملی ہے ۔ ہندوستان خوش قسمت ہے کہ کووڈ قواعد سے لاپرواہی اور احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کرنے کے باوجود واقعات میں تیزی کمی آئی ہے لیکن جب تک دوائی نہیں احتیاط برقرار رہے۔ نئے قسم کے وائرس کے نتیجہ میں ماہرین نے کسی بھی ناگہانی سے بچنے کا مشورہ دیا ہے ۔ ویکسین پر جاری سیاست میں بی جے پی قائدین پا کستان کو کیسے بھول سکتے ہیں ۔ آپ سمجھیں گے کہ بی جے پی قائدین ویکسین کے ذریعہ پاکستان کی انسانی بنیادوں پر مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن یہاں تو پاکستان کا نام لئے بغیر بی جے پی قائدین کا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ سنگھ پریوار اور بی جے پی قائدین کے ہاضمہ کے لئے پاکستان جیسے چورن کی طرح ہے۔ اکھلیش یادو نے ٹیکہ لینے سے انکار کیا تو اپنی زہرافشانی کیلئے شہرت رکھنے والے بی جے پی رہنما سنگیت سوم نے کہا کہ جس کسی کو ویکسین پر بھروسہ نہیں وہ پاکستان چلے جائیں۔ ویکسین سے پاکستان کا کیا تعلق ؟ کیا پاکستان میں ہندوستان سے بہتر ویکسین تیار ہوچکی ہے کہ سنگیت سوم وہاں جانے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔ بی جے پی اور حکومت کی مرضی کے خلاف کچھ بھی کہا جائے تو پاکستان جانے کی صلاح دی جاتی ہے ۔ کیا سنگیت سوم نے ہندوستانیوں کو پاکستان بھیجنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ؟ صدر جمہوریہ ، نائب صدر جمہوریہ کے علاوہ نریندر مودی اور امیت شاہ نے ٹیکہ نہیں لیا ۔ کیا انہیں بھی پاکستان جانے کا مشورہ دیں گے ؟ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے بارے میں سنگیت سوم کی کیا رائے ہے جنہوں نے ابھی تک ویکسین نہیں لی۔ دوسروں کیلئے ویکسین کی تائید کرنے والے سنگیت سوم خود کب دوائی لیں گے اس کا اعلان تو کریں ۔ بن بلائے مہمان کی طرح مودی پاکستان گئے تھے اور نواز شریف کی سالگرہ میں بریانی نوش کی تھی۔ اڈوانی نے پاکستان جاکر محمد علی جناح کو سیکولر ہونے کی سند دی تھی ۔ سنگیت سوم دوسروں کو بھیجنے سے قبل اپنے قائدین سے سوال کریں کہ وہ پاکستان کیوں گئے تھے۔

کورونا ویکسین پر سیاست عروج پر ہے تو دوسری طرف مودی حکومت نے کسانوں کے احتجاج سے نمٹنے کیلئے نئی سیاسی چال چلی ہے۔ سپریم کورٹ نے مرکزی زرعی قوانین پر حکم التواء جاری کرتے ہوئے چار ماہرین پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جو اندرون دو ماہ اپنی رپورٹ پیش کرے گی ۔ حکومت اور کسانوں کے درمیان مختلف مراحل کی بات چیت کی ناکامی اور قوانین سے دستبرداری تک احتجاج کے موقف سے پریشان ہوکر مودی حکومت نے سپریم کورٹ کا سہارا لیا تاکہ احتجاج کو کمزور کیا جائے ۔ حکومت نے سوچا کہ حکم التواء سے خوش ہوکر کسان احتجاج ختم کردیں گے اور کمیٹی کی رپورٹ کی مدت کو ٹالتے ہوئے کسانوں کو دوبارہ احتجاج سے روکا جاسکتا ہے ۔ مبصرین کے مطابق سپریم کورٹ اگر آزادانہ فیصلہ کرتا تو ایسے افراد کی کمیٹی تشکیل نہ دیتا جو پہلے ہی مرکزی قوانین کی تائید کرچکے ہیں۔ ان سے موافق کسان رپورٹ کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ احتجاج پر شبہات پیدا کرنے کیلئے مرکز نے خالصتانی حامیوں کے داخل ہونے کا نیا شوشہ چھوڑا ہے تاکہ کسان عوامی تائید سے محروم ہوجائیں۔ مودی حکومت کے اس طرح کے ہتھکنڈے نئی بات نہیں ہے۔ مسلمان احتجاج کریں تو دہشت گرد اور پاکستانی جبکہ سکھ احتجاج کریں تو خالصتانی ۔ دہشت گرد ، دیش دروہی ، پاکستانی اور خالصتانی کا لیبل لگاکر انصاف کیلئے اٹھنے والی آوازوں کو کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ این آر سی ، سی اے اے اور این پی آر کے خلاف احتجاج کرنے پر جے این یو طلبہ اور جہد کاروں کے خلاف دیش دروہی کے مقدمات درج کئے گئے۔ اب سکھوں پر خالصتانی لیبل لگایا جارہا ہے ۔ ان لوگوں کے بارے میں حکومت کیا کہے گی جنہوں نے فوج اور دفاعی اداروں میں رہتے ہوئے دشمن ممالک کو اہم راز حوالے کئے اور ملک کے خلاف جاسوسی کی ۔ دیش کے ان غداروں کا تعلق مسلمان یا سکھ طبقہ سے نہیں ہے ، لہذا ان کے معاملات کو دبادیا گیا۔ کسی بھی حکومت کی پہچان اقلیتوں کے ساتھ اس کے سلوک سے کی جاتی ہے۔ نریندر مودی حکومت سے ہندستان کی کوئی بھی اقلیت خوش نہیں ہے۔ اقلیتوں پر مظالم اور جارحانہ فرقہ پرستی کے معاملہ میں ہندوستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی ہے ۔ پاکستان کے ممتاز شاعر جاوید صباء نے کورونا کے پس منظر میں کیا خوب کہا ہے ؎
یہ جو ملاتے پھرتے ہو تم ہر کسی سے ہاتھ
ایسا نہ ہو کہ دھونا پڑے زندگی سے ہاتھ