شہریت قانون ”نافذ کرنے سے انکار“ کرنے والی پانچ ریاستوں پر ایم ایچ اے کا پلٹ وار’یہ ان کی پسند کامعاملہ نہیں ہے‘۔

,

   

سینئر سرکاری عہدیداروں نے کہا ہے کہ ایک مرتبہ مرکز کی جانب سے اعلامیہ کی اجرائی کے بعد بھی نئی ترمیم کی نفاذ ہر صورت میں ہوگا‘ مذکورہ ریاستی حکومتیں اس قانون کی پابجائی کے پابندہوں گے

نئی دہلی۔ شہریت قانون میں لائی گئی تبدیلی کے خلاف جمعہ کے روز مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے چیف منسٹران کے نام بھی شامل ہوگئی‘ انہوں نے اعلان کیاہے کہ وہ اس نئے قانون کو نافذ نہیں کریں گے۔

مگر پانچ ریاستیں جہاں پر اپوزیشن پارٹیوں کی حکمرانی ہے ہوم منسٹری نے یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا ہے کہ یہ ان کا کام نہیں ہے۔

سینئر سرکاری عہدیداروں نے کہا ہے کہ ایک مرتبہ مرکز کی جانب سے اعلامیہ کی اجرائی کے بعد بھی نئی ترمیم کی نفاذ ہر صورت میں ہوگا‘ مذکورہ ریاستی حکومتیں اس قانون کی پابجائی کے پابندہوں گے۔

ایک سینئر سرکاری افیسر نے کہاکہ ”یہ چیزوں کی ائینی اسکیم ہے‘ اور ایک حکومت کو ائین کے مطابق ہی چلایاجاسکتا ہے“۔

مذکورہ عہدیدار کا ماننا ہے کہ چیف منسٹروں کے یہ بیانات ایسا لگ رہا ہے کہ سیاسی منشاء اور سرخیوں میں رہنے کی کوشش کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں۔کیرالا چیف منسٹر پینارائی وجین سب سے پہلے فرد ہیں جنھوں نے نئے شہریت قانون کو نفاذ کرنے سے انکار کا اعلان کیاتھا اور اس کو ”غیر ائینی“ قراردیا۔

جمعرات کے روز ریاست کی درالحکومت میں انہوں نے کہاکہ ”کیرالا میں اس معاملے کی مناسبت سے کسی کوپریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

ایسا فرسودہ قانون نافذ نہیں کریں گے جو عوام کے درمیان تفریق پیدا کرتا ہے“۔ پنجاب اور مغربی بنگال کے چیف منسٹر اس پہلے پردستخط کرنے والے پہلی ریاستیں تھیں۔

جمعہ کے روز چیف منسٹر مدھیہ پردیشاور چھتیں گڑھ کمل ناتھ اور بھوپیش بیگہل نے اسی طرح کا بیان جاری کیا۔

مذکورہ شہریت قانون میں ترمیم لائی گئی ہے جس کامطالب ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن جو ہندو‘ سکھ‘ پارسی‘ عیسائی‘ جین اور بدھسٹ جن کا تعلق پاکستان‘ بنگلہ دیش اور افغانستان سے ہے وہ کسی دستاویزت کے بغیر 31ڈسمبر2014سے قبل ہندوستان میں داخل ہوئے ہیں انہیں ہندوستان کی شہریت سے نوازا جائے گا۔

ان تبدیلیوں کے مطابق مذکورہ کمیونٹیوں کے لوگوں کو چھ سال کے اندر ہندوستان کی شہریت حاصل ہوجائے گی‘ جو پہلے بارہ سال میں ملتی تھی‘ اور اس کے لئے قطعی تاریخ جو مقرر کی گئی ہے وہ31ڈسمبر2014 ہے۔

ایک مرتبہ جب وہ اپنی درخواست داخل کریں تو غیر قانونی طریقے سے ملک میں داخل ہونے کے متعلق تمام کاروائیوں سے انہیں آزادکردیاجائے گا۔یہ بھی بتایا گیاہے کہ اس سارے معاملے میں ریاستی حکومت کو کافی محدود عمل داخل رہے گا۔

قانون اس طرح سے تیار کیاگیا ہے اس کی کامیابی کا انحصار عوام کی منشاء پر ہوگاجو راجسٹرار کے لئے اگے ائیں گے‘ ریاستی نفاذ پر نہیں۔