آلہ اباد ہائی کورٹ نے اترپردیش حکومت کی جانب سے لگائے گئے پوسٹرس کو ہٹانے کے احکامات جاری کئے

,

   

آلہ اباد ہائی کورٹ کا ماننا ہے مذکورہ اترپردیش حکومت کی جانب سے مخالف سی اے اے احتجاجیوں کے پوسٹرس نصب کرنے کی کاروائی پر رازداری کی خلاف ورزی ہے۔

آلہ اباد۔ چیف جسٹس گوئند ماتھر اور جسٹس رامیش سنہا کی بنچ کی جانب سے ہورڈنگس پر سوموٹو کے تحت ادارک کے بعد یہ بات سامنے ائی ہے۔

مذکورہ عدالت نے کہاکہ حکومت کی یہ کاروائی”انتہائی غیر منصفانہ“ ہے اور یہ ایک متعلق افراد کی ذاتی آزادی پر ”مکمل تجاوزات“ ہے۔

پیر کے روز آلہ اباد ہائی کورٹ کی جانب سے لکھنو میں مخالف سی اے اے میں مبینہ طور پر فساد برپا کرنے والوں کے لگائے گئے پوسٹرس کے ضمن میں اترپردیش حکومت کی کاروائی کے معاملے میں فیصلہ سنائے گا۔

توقع کی جارہی ہے کہ پیر کے روز سہ پہر تک اس پر عدالت فیصلہ سنائے گی۔

چیف جسٹس گوئند ماتھر اور جسٹس رامیش سنہا کی بنچ کی جانب سے ہورڈنگس پر سوموٹو کے تحت ادارک کے بعد یہ بات سامنے ائی ہے۔

مذکورہ عدالت نے کہاکہ حکومت کی یہ کاروائی”انتہائی غیر منصفانہ“ ہے اور یہ ایک متعلق افراد کی ذاتی آزادی پر ”مکمل تجاوزات“ ہے۔

خصوصی سنوائی کے دوران مذکورہ بنچ نے لکھنو پولیس کمشنر سوجیت پانڈے اور ضلع مجسٹریٹ ابھیشک پرکاش سے کس قانون کے تحت ہورڈنگس لگائے گئے ہیں اس کی وضاحت کا استفسار کیاہے۔

جمعرات کے روز لکھنو کے ضلع مجسٹریٹ نے شہر کے مختلف چوراہوں پر مخالف سی اے اے احتجاج کرنے والے 53لوگوں کے فوٹوں پر مشتمل پوسٹرس لگائی تھے۔

نیوز 18کے مطابق فوٹوز میں شامل افراد میں شیعہ عالم دین مولانا سیف عباس‘ ریٹائرڈ ائی پی ایس ایس آر دارا پوری اور کانگریس لیڈر صدف جعفر کی تصویریں اور نام بھی موجود ہیں۔

آلہ اباد ہائی کورٹ کا ماننا ہے مذکورہ اترپردیش حکومت کی جانب سے مخالف سی اے اے احتجاجیوں کے پوسٹرس نصب کرنے کی کاروائی پر رازداری کی خلاف ورزی ہے او ر”نہایت غیر منصفانہ“ اقدام ہے۔

حکومت کے ترجمان نے کہاکہ ”چیف منسٹر کی ہدایت پر پوسٹرس لگائے گئے ہیں“۔پوسٹرس میں شامل کچھ جہدکاروں نے پہلے ہی کہا ہے کہ ان کے خلاف الزامات ثابت نہ ہونے کی صورت میں وہ اس ”عوامی تذلیل“ پر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔

اپوزیشن پارٹیاں جس میں سماج وادی پارٹی اور کانگریس شامل ہے نے احتجاجیوں کو قصور وار کے طور پر پیش کرنے کے خلاف بی جے پی حکومت کو شدید تنقید کانشانہ بنایا ہے۔

حکومت کے ایک ترجمان نے کہاکہ چیف منسٹر کی ہدایت اور اسمبلی کی عمارت کے سامنے مصروف ترین حضرت گنج علاقے کے چوراہے کے علاوہ اہم سڑکوں پر پوسٹرس لگائے گئے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ پوسٹرس میں جن لوگوں نے نام او رتصویریں شامل ہیں ان پر عوامی املاک کو احتجاج کے نام پر برباد کرنے کا الزام ہے اور اس ضمن میں ان کے نام سے پہلے ہی معاوضہ کے ذریعہ نقصانات کی بھرپائی کے لئے نوٹسیں روانہ کردی گئی ہیں۔

پوسٹر میں شامل صدف جعفر نے حکومت کے اس اقدام کو نہایت بدبختانہ قراردیا ہے۔

دارا پوری نے کہاکہ وہ ہوم سکریٹری اور ڈائرکٹر جنرل آف پولیس اور پولیس کمشنر کو مکتوب روانہ کررہے ہیں کہ اگر پوسٹرس کی وجہہ سے انہیں کسی مشکل کاسامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کی ذمہ داری انتظامیہ پر عائد ہوگی