اسلامی تہذیب اورمغربی کلچرکے مابین فرق

   

اسلام کی پاکیزہ تعلیمات انسانیت کواعلی قدروں سے روشناس کراتی ہیں،اورانسان جس پاکیزہ فطرت یعنی اسلامی فطرت پرپیداہواہے اس کوجلا بخشی ہیں،انسانی رشتے ناطوں میں ایک رشتہ بیوی اورشوہرکاہے جن کے درمیان کوئی خونی رشتہ نہیں ہوتاجیسے ماں باپ ،بھائی بہن وغیرہ پھربھی اسلام نے اس نئے رشتہ کوبڑی اہمیت دی ہے۔’’اوراسی سے اس کا جوڑا پیدافرمایا ‘‘(النساء:۱)اوراس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیداکیں تاکہ تم ان سے آرام پائو، اس نے تمہارے درمیان محبت ورحمت قائم کردی ہے(الروم:۲۱)اللہ سبحانہ نے یہ راحت وسکون اس مردوزن کیلئے رکھا ہے جواسلامی شریعت کے مطابق نکاح کے ذریعہ رشتہ قائم کرتے ہیں،یہ ایک پاکیزہ اورمقدس رشتہ ہے، اللہ سبحانہ کی رضاوخوشنودی کے جذبہ سے شرعی شہادت کی تکمیل کے ساتھ ایجاب وقبول کے ذریعہ قائم کیا جانے والا یہ رشتہ زندگی کے سردوگرم میں پیارومحبت،ایثاروقربانی ، ایک دوسرے کے جذبات واحساسات کا لحاظ رکھتے ہوئے ساتھ نبھانے کاگویا ایک عہدوپیمان ہے ،اس رشتہ کی برکت سے خاندان تشکیل پاتاہے،زوجین کے درمیان انفرادی راحت وسکون کے ساتھ اس رشتہ کی نسبت سے قائم ہونے والے اوررشتے بھی سکون وراحت کا سامان فراہم کرتے ہیں۔مسلمان اجنبی مردوعورت کے درمیان صنفی تعلق کے قیام کا ایک ہی جائزراستہ ہے اوروہ ہے نکاح،اس کوچھوڑکرجوراستہ اختیارکیا جائے گا وہ ’’زنا ‘‘ہے۔اللہ سبحانہ کا ارشادہے’’زنا کے قریب بھی نہ پھٹکوبے شک یہ بڑی بے حیائی ہے اوربہت ہی براراستہ ہے‘‘(بنی اسرائیل:۳۲)اس فعل شنیع کا ارتکاب تورہادوراس کے قریب جانے کو بھی اللہ سبحانہ نے منع فرمایاہے،زنا چونکہ بہت بڑاجرم ہے اس لئے اس کی سزابھی بہت سخت ہے،حدیث شریف میں واردہے’’جس قوم میں زناعام ہوجائے اوربلا روک ٹوک ہونے لگے تواللہ سبحانہ ان کوکسی مہلک بیماری اورایسے دکھ دردمیں مبتلاء کردیتے ہیں جس سے ان کے اسلاف محفوظ تھے‘‘ (ابن ماجہ)اسی لئے قرآن نے زناہی نہیں بلکہ وہ اسباب ومحرکات جوانسان کوزناکے راستہ پرلیجاتے ہیں اس سے بھی بچنے کی سخت تاکیدکی ہے،چنانچہ بدنگاہی زناسے قریب کرنے کا ایک زینہ ہے،اس سے بچنے کی ہدایت دی گئی ہے ’’مومن مردوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہی ان کیلئے پاکیزہ ترین طریقہ ہے

اورمومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اوراپنے بنائو سنگھاروسجاوٹ کوکسی پرظاہرنہ کریں‘‘ (النور: ۳۰،۳۱) اسلامی قانون کے خلاف کوئی رشتہ جوڑلے تواولا اسلام اس کوجائزرشتہ ہی تسلیم نہیں کرتابلکہ اسلام کی نظرمیں وہ اللہ سبحانہ کا نافرمان،زانی وبدکارہے اوروہ اسلامی سزاکا بھی مستحق ہے۔ ایسے بے نکاحی رشتہ میں نہ مؤدت قائم ہوسکتی ہے نہ سکون وراحت نصیب ہوسکتاہے،راحت وسکون کون نہیں چاہتالیکن اس کی تلاش ایسی جگہ کی جائے جہاں خالق کائنات نے نہیں رکھی توپھرظاہرہے یہ تلاش عبث ہے،مغربی تہذیب نے عریانی ،فحاشی وبے حیائی کے کلچر کوفروغ دے کر زناکوعام کیاہے،مادرپدرآزادمغربی کلچرخاندان کی نعمت سے محروم ہے،غلطی پرمتنبہ ہونے کے بجائے مغربی کلچرکے دلدادہ بدکارمردوعورت کوجوڑاباورکروانے اوران کے حقوق منوانے میں اپنی توانائیاں ضائع کررہے ہیں۔مغربی کلچرکی یہی وہ بنیادی خرابی ہے جس نے اسکوراحت وسکون کی نعمت سے محروم کردیا ہے۔ جائزازدواجی رشتے خوشی وغم ،راحت ومصیبت ہرحال میں مؤدت والفت کی ڈورمیں بندھے رہتے ہیں،زندگی کے چمنستان میںمحبت کی کلیاں چٹکتی ہیں پھروہ پھول بن کرمہکتی ہیں ،خاندان کی فضاء میں رنگ ونوربکھیرتی ہیں۔بہاروخزاں کے موسم ضرور آتے ہیں پھربھی زوجین اسلامی احکام وحدودکے پابندرہنے کی وجہ زندگی کا موسم خزاں آلودنہیں ہوتا،تازہ گلاب کی طرح ہمیشہ زندگی کی تازگی کا احساس باقی رہتاہے،شبنم کے قطروں کی طہارت وپاکیزگی ،موتیوں جیسی نزاکت ودیدہ زیبی کا کون انکارکرسکتاہے۔اس سے کہیں زیادہ ازدواجی زندگی کی پاکیزگی تسکین خاطرکا سامان کرتی ہے اوراس کی دیدہ زیبی قلب ونگاہ کوٹھنڈک بخشتی ہے ،اور سلیم الفطرت انسانوں کو اپیل کرتی ہے ۔مغربی تہذیب کے بانیان ودلدادگان کوبھی سکون وراحت کی تلاش ہے اسلام نے فطری خواہشات کی تکمیل کیلئے جو جائز راہ ’’نکاح ‘‘کی رکھی ہے ،اسلام دشمنی کی وجہ چونکہ اس سے ان کوبیرہے اس لئے غیر فطری راہوں پر چل کرسکون پانا چاہتے ہیں، اسی کوشش کا ایک نام ’’ویلنٹائن ڈے ‘‘ہے۔اس دن کے آغازکی وجوہات میں بہت سی عشق ومحبت کی داستانیں گھڑی گئی ہیںاسکی آڑمیں جوگل کھلائے جاتے ہیں وہ نفس وشیطان کوتوخوش کرسکتے ہیں لیکن اللہ سبحانہ کونہیں اورنہ ہی دلوں کوآسودہ کرسکتے ہیں،مذہب بیزاربلکہ اسلام بیزارقوموں کی محرومی کا کوئی تصورہی نہیں کیا جاسکتا،راحت وسکون کی تلاش میں وہ ایسے سرگرداں ہیں جیسے تاریک رات میں راہ بھٹکنے والا سرگرداں وپریشاں رہتاہے۔’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کوناعاقبت اندیشوں اور عقل کے اندھوں نے ’’یوم محبت‘‘کے عنوان سے منانے کی داغ بیل ڈالی ہے،اس کو’’یوم بے حیائی‘‘، ’’یوم اوباشی‘‘ توکہاجاسکتاہے لیکن یوم محبت نہیں،اجنبی مردووخواتین کا باہمی اختلاط ،حیاء وشرم کے مغائرحرکات وسکنات کا اظہار رضامندی سے جنسی ہوسناکی کے حرام شغل میں سرتاپا غرق رہنے کو اگر’’یوم محبت‘‘ کا نام دیا جائے تواس سے زیادہ فکرسلیم وعقل سلیم سے محرومی اورکیا ہوسکتی ہے۔اہل مغرب کے ہاں محبت کا مفہوم فطری محبت کے بالکل برعکس ہے،بوالہوسی کوانہو ںنے محبت کانام دیدیا ہے،جنسی بھوک جنون کا درجہ اختیارکرگئی ہے،مردوزن کے ناجائزاختلاط سے سکون میسرنہیں آسکا توانہوں نے مردومردکے درمیان حرام وغیر فطری جنسی تعلق یعنی لواطت،اسی طرح عورت وعورت کے درمیان جنسی تعلق یعنی’’ لسبین‘‘(lesbian)کے حرام کلچر کوفروغ دیاہے۔فطری جذبات کی تسکین غیرفطری راہوں سے اسکو جنون اورپاگل پن نہیں تواورکیا کہاجائے؟ اس حقیقت سے کوئی بھی دانشمندو سلیم الفطرت انسان انکارنہیں کرسکتاکہ غیر فطری جنسی تعلقات فطری جذبات کوکچلتے ہیں، راحت وتسکین ہرگزنہیں پہنچاسکتے، احکام اسلام کے مطابق مردوزن کا نکاحی تعلق ہی تسکین خاطر کا باعث بن سکتا ہے، محبت ایک پاکیزہ جذبہ ہے ،اسلام کے بتائے ہوئے محبت کے پاکیزہ اورفطری اصولوں پرچلتے ہوئے محبت کی جائے تووہی تسکین خاطرکا سامان کرسکتی ہے،مغربی تہذیب نے عشق وفسق کا رشتہ ایک دوسرے سے جوڑدیاہے یعنی یہ باورکرلیا گیاہے کہ گناہ اورحرام کاموں کواختیارکرکے ہی سکون حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان جو سیکولرملک ہے جہاں کئی ایک مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں جو اپنی اپنی مذہبی روایات کے پاسدار ہیں ، کفروشرک کی گمراہی اپنی جگہ گوکہ اس سے سمجھوتہ بھی محل نظرہے لیکن مذہبی اخلاقیات کے وہ بھی پابندہیں،بے شرمی وبے حیائی ،جنسی انارکی کے مخالف ہیں۔لیکن کیا کیا جائے اس جدید دانشوری کا جومغربی کلچرکی مسموم فضائوں میں سانس لیتی ہے جوغیرفطری دلچسپیوں میں سکون تلاش کرنے والے مغربی دانشوروں کی دانشوری کے زیراثرنشونماپاگئی ہے اور نفس وشیطان کی چاہت کے زیراثر زندگی گزارنا طے کرچکی ہے ،عقل وفہم سے عاری ان دانشوروں کوآسمانی فطری ہدایات روشنی نہیں دے سکتے، جیسے کسی نابینا کے حق میں سورج وچاندکی روشنی فائدہ بخش نہیں، ایسے دانشوروں کو دانش مند کہا جائے یا کچھ اور؟اس کا فیصلہ تومذہبی دانشوروں ہی کوکرناچاہیے جومذہب کی تعلیمات پریقین رکھتے ہیں۔حیاء وشرم تمام مذاہب میں اہمیت رکھتی ہے لیکن اس بارے میں اسلام نے جوہدایات دی ہیں اس میں مسلمانوں ہی کی نہیں بلکہ ساری انسانیت کی صلاح وفلاح کا رازمضمرہے،ارشادباری ہے’’بے شک جولوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے ان کیلئے دنیا وآخرت میں دردناک عذاب ہے‘‘(النور:۱۹) حدیث پاک میں واردہے’’ہردین کی ایک خاص پہچان ہوتی ہے اوراسلام کی پہچان حیاء ہے‘‘(ابن ماجہ:۴۱۸۱)حیاء اورایمان دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ان میں سے کوئی ایک رخصت ہوجائے تو دوسرابھی خودبخودرخصت ہوجاتاہے(بیہقی:۷۷۲۷)بے حیائی انسان کوعیب داربنادیتی ہے جبکہ حیاانسان کوزینت بخشتی ہے (ترمذی:۱۹۷۴)اللہ سبحانہ نے ہرانسان کی فطرت میں حیاء اورغیرت کی صفت ودیعت کردی ہے،حیاء انسان کوہربرائی واخلاقی گراوٹ وپستی سے بچاتی ہے۔اپنوں کی بے راہ روی فواحش ومنکرات سے ان کی دلچسپی کوایک انسان کی غیرت جھنجھوڑتی ہے،وہ اپنوں کوغلط روی کا شکارہوتے ہوئے دیکھ نہیں سکتا۔مغربی معاشرہ حیاء وغیرت دونوں سے محروم ہے اس لئے ان کے ہاں بے حیائی ،بے شرمی وبدکاری ایک بے معنی شیٔ ہے،ان کی ڈکشنری میں برائی کا کوئی تصورنہیں،ان کی زندگی ’’اذا لم تستحی فاصنع ما شئت‘‘(بخاری:۳۲۹۶)کے مصداق ہے،یعنی جب شرم وحیاء ہی نہ رہے توپھرجو چاہو کرو‘‘۔ الغرض تسکین خاطرکا سامان اسلام کے احکام کے مطابق ازدواجی رشتہ قائم کرنے میں ہے ، مغربی تہذیب کے زیراثرآزادانہ صنفی تعلق سکون زندگی سے محرومی اوراخروی ناکامی کا باعث ہے،حرام وحلال ،جائزوناجائزیہ وہ ربانی احکام ہیں جن کے جاننے اوران پرایمان ویقین کے ساتھ عمل کرنے میں دونوں جہاں کی کامیابی کی ضمانت ہے،اسلامی تہذیب اورمغربی کلچرکے مابین یہی وہ فرق ہے جودونوں کے درمیان خط امتیازقائم کرتاہے۔