اپوزیشن اجلاس سے امیدیں

   

ایک مرتبہ کے التواء کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس پٹنہ میں 23 جون کو ہونا طئے پایا ہے ۔ اس اجلاس کیلئے کچھ وقت سے کوششیں کی جا رہی تھیں۔ یہ اجلاس ابتداء میں 12 جون کو ہونا طئے پایا تھا تاہم کانگریس لیڈر راہول گاندھی کے دورہ امریکہ کی وجہ سے اور کسی ایک اور جماعت کی درخواست پر اسے ملتوی کیا گیا تھا ۔ اب یہ طئے کیا گیا ہے کہ 23 جون کو پٹنہ میں یہ اجلاس ہوگا جس میں ایسی تمام اپوزیشن جماعتوں کے قائدین شرکت کریں گے جنہوں نے آئندہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کے خلاف مقابلہ آرائی کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس اجلاس سے قبل کچھ گوشوں کی جانب سے حالات کو بگاڑنے اور ایسے سوال پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جن کی فی الوقت کوئی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اس سے اپوزیشن اتحاد کے بنیادی مقصد کی تکمیل ہوتی ہے ۔ کچھ گوشے یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ آئندہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کے خلاف مقابلہ میں اپوزیشن کا مشترکہ چہرہ کون ہوگا ۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر تمام جماعتوں میں اتفاق رائے کا فقدان ہے ۔ ہر جماعت اس پر اپنے موقف کا فی الحال اظہار کرنا نہیں چاہتی اور کچھ جماعتیں مختلف رائے بھی رکھتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے مابین اختلاف رائے کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ یہ جمہوری عمل کا حصہ ہی ہے ۔ ہر جماعت کے اپنے خیالات اور منصوبے ہوتے ہیں اور ان کے مطابق ان جماعتوں کی حکمت عملی کا تعین کیا جاتا ہے ۔ کچھ جماعتیں کانگریس لیڈر راہول گاندھی کو اپوزیشن کا مشترکہ چہرہ بنانے سے گریز کرتی رہی ہیں جبکہ خود کانگریس نے بھی ابھی یہ واضح نہیں کیا ہے کہ راہول گاندھی آئندہ انتخابات میں مشترکہ اپوزیشن کا چہرہ ہونگے ۔ بی جے پی اور گودی میڈیا کی جانب سے اس مسئلہ پر الجھن پیدا کرنے اور اجلاس میں شرکت کرنے والی اپوزیشن جماعتوں کے مابین اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کرنے لگی ہیں۔ حالانکہ جو جماعتیں اجلاس میں شرکت کرنے والی ہیں انہوں نے ابھی تک اس مسئلہ پر کوئی رائے ظاہر نہیں کی ہے اور نہ ہی ابھی یہ وقت آیا ہے کہ اس پر غور کیا جائے یا کسی فیصلے پر پہونچا جائے ۔ اس کیلئے ابھی کافی وقت ہے ۔
جہاں تک اجلاس کا ایجنڈہ ہے اس تعلق سے امید کی جا رہی ہے کہ ایک اقل ترین مشترکہ پروگرام پر بات کی جائے گی ۔ تمام جماعتوں کو بی جے پی کے خلاف متحدہ مقابلہ کیلئے تیار کرنے کیلئے کوشش کی جائے گی ۔ ہر جماعت کی رائے سنی جائے گی اور کچھ تجاویز پیش کرتے ہوئے ہر ایک سے رائے لی جائے گی ۔ ایسا کرتے ہوئے اتحاد کو مستحکم بنیاد فراہم کرنا ضروری ہے ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ صرف اپوزیشن جماعتوں کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجانا ہی اصل کامیابی نہیں ہے ۔ یہ کامیابی کی سمت پیشرفت ضرور ہے لیکن ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجانا بجائے خود بڑی کامیابی نہیں ہے ۔ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوتے ہوئے ایک اقل ترین مشترکہ پروگرام تیار کرنا اور عوام میں متبادل پالیسیاں اور پروگرامس پیش کرنا زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ جو جماعتیں بی جے پی کے خلاف محاذ آرائی کی خواہاں ہیں وہ مختلف نظریات رکھتی ہیں لیکن بی جے پی سے مشترکہ مقابلہ پر اتفاق کرتی ہیں۔ ایسے میں سبھی کی رائے سے ایک اقل ترین مشترکہ پروگرام کی تیاری زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور اسی کے ذریعہ عوامی تائید حاصل کرنے کی کوششوں کو استحکام بخشا جاسکتا ہے ۔ ایک جامع پالیسی اور پروگرام عوام کو پیش کرتے ہوئے حکومت کی ناکامیوں اور خامیوں کو پیش کیا جاسکتا ہے اور جمہوری عمل میں یہی ایک صحیح طریقہ کار کہا جاسکتا ہے ۔
حکومت کے خلاف اپوزیشن کا چہرہ کون ہوگا یہ سوال زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے ۔ زیادہ اہمیت کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں عوام کے سامنے کیا متبادل منصوبے اور پروگرام پیش کر سکتی ہیں۔حکومت کی خامیوں اور ناکامیوں کو درست کرنے کیلئے کیا پالیسی اور حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے وہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ عوام جن مسائل کا شکار ہے ان کو بہتر بنانے کیلئے ایک پروگرام تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ مخالفانہ کوششوں کے باوجود یہ امید کی جا رہی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں اپنے اجلاس میں ایک موثر حکمت عملی پر غور کریں گے اور عوام کے سامنے جامع اور متحدہ موقف پیش کرنے میں کامیاب ہونگی ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ اس اتحاد سے جو امیدیں وابستہ ہونے لگی ہیںان کی تکمیل ممکن ہوسکتی ہے ۔