این سی ایم چیف کابیان’ایودھیافیصلے پر نظرثانی کی درخواست مسلمانوں کی جانب سے اہم ہند و مندر کی مخالفت کا اشارہ“

,

   

اگروارناسی اور ماتھرا پر بھی اس طرح کے دعوی پیش کرنے کے توقع کے متعلق استفسار پر انہوں نے کہاکہ ”نہیں میں صرف دوری پیدا ہونے کی بات کررہاہوں۔ وہاں ایودھیامیں 7-8مساجد ہیں۔ ہندوؤں نے صرف اس ایک مسجد پردعوی کیاہے۔ ان کے حوالے وہ کریں اور آگے بڑھیں“

نئی دہلی۔ قومی کمیشن برائے اقلیت کے چیرمن غیور الحسن رضوی نے کہاکہ مسلمانوں کو بابری مسجد رام جنم بھومی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر نہیں کرنا چاہئے‘

کیونکہ اس سے یہ پیغام جائے گاکہ وہ رام مندر کی تعمیرمیں رکاوٹ پیدا کررہے ہیں جو ہندوؤں کے لئے کافی اہمیت رکھتی ہے اس کے علاوہ یہ ان الفاظ سے انکار بھی ہوگا جو سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے قبل اس کو تسلیم کرنے کی باتیں کی جارہی تھیں۔

رضوی نے اپنے استفسار میں کہاکہ ”یہ سارے ملک‘ ہندوؤں‘ مسلمانوں اور یہاں تک کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل وعدہ کیاگیاتھا کہ فیصلہ کو تسلیم کوکیاجائے گا۔ مسلمانوں نے کبھی نہیں کہاتھا کہ اگر فیصلہ ان کے حق میں ائے گاتو ہی اس کو تسلیم کیاجائے گا۔

لہذا اب وہ اپنے الفاظ سے مکر رہے ہیں۔ مگر اس سے زیادہ جوخطرناک ہے وہ نظرثانی کی درخواست دائر کرنے کے بعد جانے والا پیغام ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان جان بوجھ کر رام مندر کی تعمیر میں رکاوٹ کھڑی کررہے ہیں‘

اور ہندوؤں کے اہم بھگوان کاجشن منانے سے انہیں روکنے کی کوششیں کررہے ہیں۔اگر مسلمانوں کو مستحکم ہونا ہے تو اس معاملے کو انہیں چھوڑ دینا چاہئے۔

وہ اگے کیسے بڑھیں گے اگر وہ اس دہوں پرانے مسجد مند رتنازعہ کو پیتے رہیں گے“۔اس کے علاوہ انہوں نے زوردیاکہ مسلمانوں کو سپریم کورٹ کی جانب سے منظورکی گئی پانچ ایکڑ اراضی کو لے کر اس پر مسجد کی تعمیر کرنی چاہئے جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک نشانی بنے۔

پچھلے ہفتہ کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ورکنگ کمیٹی نے فیصلہ کیاہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کریں گے۔ جبکہ جمعیت علماء ہند اس معاملے منقسم ہے۔

جمعیت کا ایک دھڑا نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے کی حمایت ہے تو دوسرے اس کی مخالفت کررہا ہے۔

رضوی نے کہاکہ ”یہ سچ بات ہے کہ مسجد کی جگہ کسی کو نہیں دی جاسکتی ہے مگر مسلمانو ں کے لئے مذکورہ مسجد مکہ یا مدینہ نہیں ہے او رنہ ہی بیت المقدس ہے لہذا مسلمانوں کو مسلئے کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھ جانا چاہئے“۔