ایودھیا اراضی تنازعہ پر مصالحتی مساعی

   

میں آج سب کے سامنے جلتا سوال ہوں
حالات نے جو وقت کے تیور پہ لکھ دیا
ایودھیا اراضی تنازعہ پر مصالحتی مساعی
سپریم کورٹ نے آج ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے ایودھیا اراضی تنازعہ پر کوئی حکمنامہ جاری کرنے کی بجائے فریقین کے مابین مصالحت کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دیدی ہے ۔ کمیٹی میں تین ارکان کو شامل کیا گیا ہے اور انہیں اندرون ایک ہفتہ مصالحت کے عمل کا آغاز کرنے اور اندرون آٹھ ہفتے اس عمل کو مکمل کرنے کو کہا گیا ہے ۔ سب سے اہم بات سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ ہے کہ اس کمیٹی کو مصالحت کیلئے فیض آباد میں اجلاس منعقد کرنے کو کہا گیا ہے ۔ یہ اجلاس اور تمام بات چیت بند کمرے میں ہوگی ۔ مکمل راز داری برتی جائے گی اور میڈیا میں اس کی کوئی تشہیر نہیں ہوگی ۔ یہ شرائط مختلف گوشوں سے مداخلتوں اور اپنے من مانی تبصروں کو روکنے کی کوشش ہیں اور اس کے اچھے نتائج برآمد ہونے چاہئیں۔ جہاں تک مصالحت کا سوال ہے سپریم کورٹ نے کسی حکمنامہ کی اجرائی یا درخواستوں کی یکسوئی خود کرنے کی بجائے فریقین کو مصالحت کرنے کا موقع دیا ہے جس کا بحیثیت مجموعی خیرمقدم بھی کیا جا رہا ہے ۔ ایسے فیصلے شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے جہاں عدالتوں کی جانب سے درخواستوں کی ثبوتو شواہد کی بنیاد پر یکسوئی کرنے کی بجائے فریقین میں مصالحت کیلئے پہل کی جاتی ہے اور خود سپریم کورٹ کی نگرانی میں تین رکنی کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے ۔ اس کمیٹی کو مزید ارکان کی شمولیت کا اختیار بھی دیا گیا ہے اور یہ بھی گنجائش فراہم کی گئی ہے کہ اگر کمیٹی چاہے تو وہ کسی بھی وقت قانونی رائے بھی حاصل کرسکتی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کمیٹی فریقین میں کس کا انتخاب کرتی ہے ۔ کس کو بات چیت کیلئے مدعو کیا جاتا ہے اور کیا بات چیت ہوتی ہے ۔ یہ سب کچھ حالانکہ راز میں رہے گا اور اس کی کوئی تشہیر نہیں ہوگی لیکن جب یہ کمیٹی اپنی کوششوں کے نتیجہ پر پہونچے گی تو اسی وقت پتہ چلا گا کہ مسئلہ کی یکسوئی کیلئے کیا کچھ تجاویز سامنے آئی ہیں اور فریقین میں کس نے کس بات سے اتفاق کیا ہے اور کونسی تجویز سے اختلاف کیا گیا ہے ۔ فریقین میں خود آپس میں کیا تجاویز کا تبادلہ ہوتا ہے اور دونوں میں کس حد تک سنجیدگی سے آگے بڑھتے ہیں یہ بات اہمیت کی حامل ہوگی کیونکہ مصالحت کی کوشش پہلے بھی ناکام ہوچکی ہے ۔
اب جبکہ عدالت نے خود مصالحتی کمیٹی قائم کی ہے اور ان کا سربراہ بھی مقرر کردیا ہے اور یہ واضح کردیا ہے کہ خود عدالت اس کی نگرانی کریگی اوراس کمیٹی کیلئے شرائط بھی طئے کردئے ہیں تو پھر فریقین کو بھی اس معاملہ میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس سے قبل جب مصالحت کی کوشش کی گئی تھی تو کوئی باضابطہ مجاز نہیں گردانا گیا تھا ۔ ہر کسی نے اپنے طور پر پہل کرنے کی کوشش کی تھی جسے ایک فریق نے اگر قبول کیا تو دوسرے نے مسترد کردیا تھا ۔ اب فریقین کے سامنے مصالحتی کمیٹی کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہ گیا ہے ۔ یہ سپریم کورٹ کے مقرر کردہ ہیں۔ ان کے سامنے ایک ہی حذف ہے کہ کسی طرح بات چیت کے ذریعہ قابل قبول انداز میں اس دیرینہ متنازعہ مسئلہ کی یکسوئی کی جائے اور عدالت کو اس معاملہ میں ہونے والی پیشرفت سے واقف بھی کروایا جائے ۔ اب مصالحت کی سمت پیشرفت ہوتی ہے تو اس کو سبھی گوشوں کو اور فریقین کو تسلیم کرنا ہوگا کوئی بھی اس کمیٹی کے کام کاج پر یا اس کے اختیارات اور دائرہ اختیار پر سوال نہیں اٹھا پائیگا ۔ درمیان میں مصالحتی عمل کو متاثر ہونے سے بچانے کیلئے رازداری برتنے کی جو شرائط سپریم کورٹ نے عائد کی ہیں وہ بھی قابل خیر مقدم ہیں کیونکہ اگر کوئی تجویز یا رائے منظر عام پر آجاتی ہے یا اس کا افشا ہوجاتا ہے تو پھر اس پر سیاست شروع ہوجاتی ہے اور ہر گوشے اس کو اپنے انداز میں پیش کرتے ہوئے سماج میں ایک طرح کی بے چینی پیدا کرنے میں مصروف ہوسکتا ہے ۔
جو بھی فریقین بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی اراضی تنازعہ کا حصہ ہیں اب انہیںسر عام کسی رائے کا اظہار کرنے اور اس پر تبصرے اور بیان بازیاں کرنے کی بجائے خود مصالحتی کمیٹی میں ہی اپنی رائے پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہر فریق کو مسئلہ کی منصفانہ اور قابل قبول انداز میں یکسوئی کے مقصد کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ جب تک فریقین میں سنجیدگی اور واقعی مسئلہ کی منصفانہ یکسوئی کا جذبہ نہیں ہوگا اس وقت تک کسی حل کے تعلق سے زیادہ پرامید نہیں ہوا جاسکتا ۔ ایک اور بات یہ بھی ہے کہ اب سیاسی جماعتوں کو اس میں مداخلت سے باز آجانے کی ضرورت ہے ۔ انہیں اپنی سیاست کو اس مسئلہ سے الگ کرلینا چاہئے ۔ صرف حقیقی فریقین کو ہی بات چیت کا حصہ بنتے ہوئے اس کی یکسوئی کی کوشش کرنی چاہئے ۔