تلقین میت

   

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ میت کے سینہ پر کلمۂ طیبہ اور بسم اﷲ الرحمن الرحیم لکھنا شرعًا درست ہے یا نہیں ؟
۲۔ کیا میت کو دفن کرنے کے بعد قبر پر سینہ کے برابر ہاتھ رکھ کر تلقین کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ ایک مسجد کا امام اس کو غلط کہہ رہا ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب : شرعًا مسلمان میت کے غسل کے بعد پیشانی پر انگلی سے تسمیہ شریف {بسم اﷲ الرحمن الرحیم} اور سینہ پر کلمۂ طیبہ ’’لاالٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ لکھنا درست ہے۔ اور اس کی فضیلت و برکت معروف ہے : درمختار جلد اول باب صلاۃ الجنائز ص ۶۶۸ میں ہے : أوصی بعضھم أن یکتب فی جبھتہ و صدرہ بسم اﷲ الرحمن الرحیم ففعل، ثم رؤی فی المنام فسئل فقال لما وضعت فی القبر جاء تنی ملائکۃ العذاب فلما رأوا مکتوبا علی جبھتی بسم اﷲ الرحمن الرحیم قالوا أمنت من عذاب اﷲ اور ردالمحتار جلد اول ص ۶۶۹ میں ہے : نقل بعض المحشین عن فوائد الشرجی ان مما یکتب علی جبھۃ المیت بغیر مداد بالأصبع المسبحۃ بسم اﷲ الرحمن الرحیم وعلی الصدر لاالٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ وذلک بعد الغسل قبل التکفین۔ اھ
۲۔شرعًا مسلمان میت کی تدفین کے بعد قبر پر سینہ کے محاذی ہاتھ رکھتے ہوئے، میت سے خطاب کرکے اﷲ تعالیٰ کے رب اور اسلام کے دین اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے پیغمبر ہونے وغیرہ کی تلقین کرنا درست ہے۔ اس عمل سے روکنا یا اس کو غلط کہنا درست نہیں۔ درمختار بر حاشیہ ردالمحتار جلد اول باب صلاۃ الجنائز ص ۶۲۸ میں ہے : {ولا یلقن بعد تلحیدہ} واِن فعل لاینھی عنہ ، وفی الجوھرۃ انہ مشروع عند أھل السنۃ ویکفی قولہ یافلان ابن فلان اذکر ما کنت علیہ وقل رضیت باﷲ ربا و بالاسلام دینا وبمحمد {صلی اﷲ علیہ وسلم} نبیا۔
فقط واﷲ أعلم