جمو ں میں سینئر بی جے پی قائدین کی بیرونی ممالک کے سفیروں سے سیول سوسائٹی گروپ کے طور پر ملاقات

,

   

سفیروں سے ملنے والے دیگر لوگوں میں دو یونیورسٹی آف جموں کے تدریسی عملے کے دو ممبرس تھے‘ جبکہ دو والمیکی سماج اور ایک سابق سپاہی جس کا تعلق جموں میں بسنے والی گورکھاکمیونٹی سے ہے

جموں۔ مختلف ممالک سے ائے 15سفیروں سے جمعہ کے روز جموں میں ملاقات کرنے والے ایک درجن کے قریب سیول سوسائٹی کے ممبران میں کم سے کم تین بی جے پی کے سینئر قائدین اور ایک پارٹی کے مضبوط حمایتی کے طور پر پہچانے جانے والے لوگ شامل تھے۔

اس کے علاوہ بی جے پی کے ریاستی ترجمان اشونی چورانگو کی قیادت میں کشمیری پنڈتوں کا ایک وفد بھی ملاقات کرنے والوں میں شامل رہا ہے‘ جموں اور کشمیر کے لئے مذکورہ سفیروں کا دورے کا یہ دوسرا دن تھا۔

جموں او رکشمیر میں بی جے پی کے جنرل سکریٹری نریندر سنگھ بھی سیول سوسائٹی گروپ کا حصہ تھے جس کے متعلق مبینہ طور پر بتایاجاتا ہے کہ وہ پاکستان مقبوضہ علاقے سے ائے ہوئے پناہ گزین ہیں۔

جو کہتے ہیں کہ ان کی فیملی کا تعلق درحقیقت پونچ کے پالانداری علاقے سے ہے جو اب پاکستان کے قبضے میں ہے۔انہوں نے کہاکہ ”ہم تمام نے ارٹیکل370اور35اے ہٹائے جانے کی حمایت کی ہے اور دورے کررہے سفیروں کو بتایا کہ یہ عوام کا طویل مدت سے زیر التوا مطالبہ ہے۔

ہم نے انہیں بتایا کہ جموں او رکشمیر میں حالات معمول پر ہیں“۔جموں کشمیر بی جے پی کے نائب صدر غلام علی کھاتانہ نے جموں کشمیر گجر یونائٹیڈ فرنٹ کے صدر کے طور پر سفیروں سے ملاقات کی۔

انہو ں نے کہاکہ ارٹیکل370اور35اے کی برخواستگی گجروں اور دیہی پنچایتوں کو استحکام بخشنے والا ہے۔

جموں اور کشمیر بی جے پی کے ترجمان ابھینو شرما بھی سیول سوسائٹی کے گروپ میں جموں کشمیر ہائی کورٹ بار اسوسیشن کے صدر کے طور پر شامل تھے۔

انہوں نے سفیروں کو بتایا کہ دونوں ارٹیکلوں کو صدراتی احکامات کے ذریعہ ہٹایاگیاہے‘ مگر یونین حکومت نے پارلیمنٹ کو بھروسہ میں لیااور پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں قرارداد بھی منظور کروائی ہے۔

بی جے پی کے ریاستی ترجمان چورانگو کشمیری پنڈتوں کے گروپ کی قیادت کررہے تھے جس نے سفیروں سے جگتی ٹاؤن شپ جو جموں کے مضافاتی علاقے میں بسائی گئی ہے وہاں پر ملاقات کی ہے۔

قبل ازیں وہ پانون کشمیر کے ساتھ تھے اور پھر انہوں نے آخر کار بی جے پی میں شامل ہونے سے قبل اپنا پانون کشمیری تحریک شروع کیا۔

انہوں نے کہاکہ ”ہم نے کس طرح ارٹیکل370اور 35اے وادی میں علیحدگی پسندوں کی حوصلہ افزائی کررہاتھا‘ اور کشمیری پنڈوں کو اپنے گھر چھوڑ کر اپنے ہی ملک میں جلاوطنوں کی طرح زندگی گذارنے پر مجبور رکررہاتھا اس سے سفیروں کو واقف کروایا۔

بی جے پی کے حمایتی کے طور پر پہچانے جانے والے لابھا رام گاندھی نے خود کو مغربی پاکستانی پناہ گزینوں کے نمائندے کے طور پر پیش کیا۔

انہوں نے کہاکہ ان کی کمیونٹی کے لوگوں کے ساتھ اب بھی باہری لوگوں کی طرح سلوک کیاجاتا ہے۔انہوں نے کہاکہ ”اس ملک کو آزادی 15اگست1947کو ملی‘ مگر ہمیں آزادی 5اگست2019اس کو وقت ملی جب مرکز نے ارٹیکل370اور 35اے کو ہٹادیا“۔

سفیروں سے ملنے والے دیگر لوگوں میں دو یونیورسٹی آف جموں کے تدریسی عملے کے دو ممبرس تھے‘ جبکہ دو والمیکی سماج اور ایک سابق سپاہی جس کا تعلق جموں میں بسنے والی گورکھاکمیونٹی سے ہے۔

درایں اثناء ریاستی کانگریس صدر جی اے میر اور نیشنل کانفرنس کے صوبائی صدر دیویندر رانا نے کہاکہ انہیں انتظامیہ کی جانب سے مدعو نہیں کیاگیاتھا۔

جموں او رکشمیر بی جے پی صدر رویندر رانا سے جب ربط پید ا کیاگیاتو انہوں نے کہاکہ پارٹی کو کوئی دعوت نامہ نہیں ملا‘ کیونکہ حکومت چاہتی تھی کہ اس کو غیر سیاسی امور کے طور پر رکھے۔

جب ان سے بی جے پی کے سینئر قائدین کی سفیروں سے ملاقات کے متعلق پوچھا گیاتو انہوں نے کہاکہ انہیں غیر سیاسی تنظیموں کے نمائندوں کے طور پر مدعو کیاگیاتھا جس کا تعلق مختلف شعبہ حیات کی سیول سوسائٹی سے ہے۔

چیرمن ایس او ایس انٹرنیشنل راجیو چونی جس کا تعلق پاکستان سے ائے پناہ گزینوں کی ایک تنظیم سے ہے اور راکیش گپتا صدر جموں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کو بھی سفیروں سے ملاقات کے لئے مدعو نہیں کیاگیاتھا۔

چونی نے کہاکہ یہ انتظامیہ کی جانب سے نگرانی والا ٹور تھا‘ وہیں گپتا نے کہاکہ شائد حکومت انہیں بیرونی سفیروں سے ملاقات کرنے کے قابل نہیں سمجھتی ہے