حکومت کے کام کاج کا انداز

   

بات بھی تشنہ رہی ، الفاظ بھی مبہم رہے
عہد و پیمانِ نظر لیکن بڑے محکم رہے
حکومت کے کام کاج کا انداز
مرکز کی نریندرمودی حکومت ایسا لگتا ہے کہ ہر معاملہ میں اپنے کام کاج کا انداز سب سے الگ رکھنے میںمہارت رکھتی ہے ۔ ویسے تو حکومت میں ہر شعبہ کیلئے وزارتیں قائم کردی گئی ہیںاور وزراء بھی کام کر رہے ہیں لیکن اب یہ واضح ہوجاتا جارہا ہے کہ وزراء کو بھی اپنے اپنے قلمدانوں کے تعلق سے کام کرنے کی پوری اور مکمل آزادی حاصل نہیں رہ گئی ہے ۔ اس کی کئی مثالیں پہلے بھی سامنے آئی تھیں اور اب تازہ ترین مثال میںمعیشت سے متعلق وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے منعقدہ نیتی آیوگ کے اجلاس کی ہے ۔ اس اجلاس میںجہاں وزیر اعظم موجود تھے وہیں وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری موجود تھے ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ موجود تھے اور ایک اور مرکزی وزیر پیوش گوئل نے بھی شرکت کی ۔ نیتی آیوگ کے ذمہ داران بھی اجلاس میںشریک رہے ہیں۔ حیرت اور تعجب کی بات یہ ہے کہ اس اجلاس سے متعلقہ وزیر ہی غائب رہی ہیں۔ وزیر فینانس نرملا سیتارامن اجلاس میںنظر نہیں آئیں۔ یہ درست ہے کہ وزیر اعظم کی نگرانی میں اس طرح کے اجلاس ہوا کرتے ہیں لیکن ان میں متعلقہ محکمہ اور شعبہ کے ذمہ دار وزیر اور عہدیدار بھی موجود رہتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ نریندرمودی حکومت میں متعلقہ وزراء کو بھی اپنے محکموں کے کام کاج کا کامل اور مکمل اختیار نہیں دیا گیا ہے ۔ حکومت کسی بھی شعبہ یا محکمہ میں کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اس سے مرکزی وزراء کی عدم واقفیت کی مثالیں قائم ہونے لگی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ جس وقت وزیر اعظم نے 2016 میں نوٹ بندی کا ٹی وی پر پیش ہوتے ہوئے اعلان کیا تھا اس وقت کے وزیر فینانس کو بھی یہ علم نہیں تھا کہ ملک میں ایسا بھی کوئی فیصلہ کرلیا گیا ہے ۔ کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ اس وقت ریزرو بینک کی جانب سے نوٹ بندی کے خلاف رائے دی گئی تھی لیکن اس رائے کو بھی خاطر میں لائے بغیر وزیر اعظم نے نہ صرف یہ فیصلہ کرلیا بلکہ اس فیصلہ کا انہوں نے ٹی وی پر اعلان بھی کردیا ۔ بعد میں مختلف موقعوں پر مختلف وضاحتیںکی گئیں اور نت نئے بہانے پیش کرتے ہوئے حکومت کے فیصلے کو حق بجانب اور درست قرار دینے کی تقریبا ہر سرکاری گوشے سے کوشش کی گئی تھی ۔
اسی طرح نریندر مودی حکومت کی پہلی معیاد میں جس وقت آنجہانی منوہر پریکر ملک کے وزیر دفاع تھے اس وقت رافیل طیاروں کی خریدی کے مسئلہ پر سیاست میں گہما گہمی چل رہی تھی اوروزیر اعظم نے فرانس کا دورہ کرتے ہوئے رافیل معاملت کو قطعیت دی اورا س تعلق سے معاہدہ پر دستخط بھی کردئے تھے ۔ اس وقت کے وزیر دفاع کو رافیل معاملت کی تفصیلات کا پورا علم نہیں تھا جس کا بعد میں انکشاف ہوا ۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ کچھ وقت بعد نرملا سیتارامن کو ‘ جو اب وزیر فینانس ہیں‘ وزارت دفاع کی ذمہ داری سونپی گئی تھی ۔ نرملا سیتارامن نے حالانکہ پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے باہر اس مسئلہ پر حکومت کے موقف کی مدافعت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی لیکن رافیل معاملت کے کئی امور سے انہیں بھی لا علم رکھا گیا تھا ۔ اس طرح متعلقہ وزیر ہی سے متعلقہ محکمہ کے امور اور معاملات کے علاوہ فیصلوں سے ناواقف رکھنا اور ان سے راز داری برتنا یہ قابل فہم نہیں ہوسکتا ۔ اس سے حکومت کے کام کاج کے طریقہ پر سوال اٹھتے ہیں۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ نریندرمودی کابینہ میں گنتی کے چند افراد کے علاوہ کسی بھی وزیر کو خودا پنے محکمہ ہی میں کھل کر کام کرنے اور فیصلے کرنے کی آزادی نہیں ہے بلکہ انہیں بھی ربر اسٹامپ کی طرح استعمال کیا جاتا ہے ۔ وہ صرف پروٹوکول حاصل کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں اور فیصلے اورا قدامات چند مٹھی بھر افراد کی جانب سے ہی کئے جاتے ہیں۔
کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ چونکہ ملک کی معیشت ان دنوں انتہائی نامساعد حالات سے گذر رہی ہے اور ہر شعبہ میں انحطاط اور منفی رجحان پایا جاتا ہے ایسے میںنرملا سیتارامن کی کارکردگی سے حکومت مطمئن نہیں ہے ۔ اس سلسلہ میں دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ سابق میں اس طرح کے جو اجلاس ہوا کرتے تھے ان میں اس وقت کے وزیر فینانس ارون جیٹلی شریک رہا کرتے تھے۔ اس بار نرملا سیتارامن اجلاس میںشریک نہیں رہیں۔ اگر اس بات میں کوئی سچائی ہے تو پھر حکومت کو محض کسی وزیر کو نظر انداز کرنے کی بجائے قلمدان کی تبدیلی پر غور کرنا چاہئے ۔ اگر ایسا نہیںہے تو یہ شبہات تقویت پاتے ہیں کہ حکومت میں وزراء کو ربر اسٹامپ کی طرح برقرار رکھتے ہوئے چند مٹھی بھر افراد کی جانب سے ہی فیصلے کرنے کا طریقہ کار رائج ہے ۔ یہ طریقہ کسی بھی حکومت میںقابل قبول نہیں ہوسکتا ۔ ایسا طریقہ جمہوری اقدار کے مغائر ہے ۔