حین حیات مکمل تصرف کا اختیار

   

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بکر کے متعلقین میں پہلی زوجہ اور انکے بطنی چار لڑکے اور ایک لڑکی اور دوسری بیوی اور انکے بطنی دو لڑکے اور تین لڑکیاں ہیں۔ بکر کی جائیداد انکی زر خرید کچھ گنٹے اراضی اور ایک مکان ہے۔ اور ان پر کثیر رقم کا قرض بھی باقی ہے۔ وہ اپنی زندگی میں جائیداد فروخت کرکے قرض ادا کرنا اور اپنے متعلقین میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
ایسی صورت میں ورثاء کے درمیان تقسیم کے متعلق شرعًا کیا حکم ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب : صورت مسئول عنہا میں مالکِ جائیداد بکر کی حین حیات انکی جائیداد میں انکے کسی بھی وارث کا کو ئی حق وحصہ نہیں، کیونکہ وارث کا حق بعد وفات مورث ہوتا ہے، زندگی میں نہیں۔ اگر بکر اپنی زندگی ہی میں ورثاء کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو بعد ادائی قرض اپنے لئے جو مناسب سمجھے رکھ لیکر بقیہ اپنے تمام ورثہ میں سب کو برابر برابر بلالحاظ لڑکا، لڑکی یا کسی کو نقصان پہنچانا مقصود نہ ہو تو کسی کو کم کسی کو زائد دے سکتے ہیں۔ البتہ کسی بھی وارث کو بالکلیہ محروم نہ کرے کیونکہ ایسا کرنا گناہ ہے۔ لیکن جسکو دیا جائے وہ مالک ہوجائیگا۔ درمختار بر حاشیہ ردالمحتار جلد ۵ کتاب الفرائض میں ہے : وھل ارث الحی من الحی أم من المیت ؟ ألمعتمد الثانی۔ اور اسی کتاب کی جلد ۴ کتاب الھبۃ میں ہے : وفی الخانیۃ لابأس بتفضیل بعض الأولاد فی المحبۃ لأنھا عمل القلب و کذا فی العطایا اِن لم یقصد بہ الاضرار واِن قصدہ سوی بینھم یعطی البنت کالابن عند الثانی وعلیہ الفتوی ولو وھب فی صحتہ کل المال للولد جاز وأثم۔ فقط واﷲ أعلم