دنیا کی 75فیصد آبادی2050تک خشک سالی کا شکار ہوگی

,

   

ہندوستان کو شدید خشک سالی کے شکار ممالک میں سے ایک مانا جارہا ہے۔
خشک سالی 2050تک کی دنیاکی تین چوتھائی آبادی کو متاثر کرسکتی ہے۔ ہندوستان میں خشک سالی کے علاقے میں 1997کے بعد سے 57فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ہر سال پچاس ملین ہندوستانی خشک سالی سے متاثر ہورہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے بموجب عالمی سطح پر 2000کے بعد پچھلے دو دہوں کے مقابلہ میں خشک سالی کی مدت اور تعداد میں 29فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔دنیا بھر میں خشک سالی پائیدار ترقی کے لئے سب سے بڑے خطرات میں سے ایک ہے اور کوئی بھی ملک خشک سالی سے محفوظ نہیں ہے۔


پانی کے تناؤ کا سامنا2.3بلین افراد کو
آج کی تاریخ میں 2.3بلین لوگ پانی کے تناؤ کا سامنا کررہے ہیں اور ممکن ہے کہ زیادہ سے زیادہ علاقے آنے والے دنوں میں شدید پانی کی قلت سے دوچار ہورہے ہیں۔

اس سال صحرا بندی کے خلاف اقوام متحدہ کے بین الاقوامی دن اور خشک سالی کا موضوع”ایک ساتھ خشک سالی سے باہر آنا“انسانیت او رسیاروں کے ماحولیاتی نظام کے لئے تباہ کن نتائج سے بچنے کے لئے جلد ازاجلدکاروائی کی ضرورتپر زوردیا ہے۔

صحرائی بنجر‘ نیم خشک اورخشک ذیلی مرطوب علاقوں میں زمینی انحطاط ہے۔ یہ بنیادی طور پر انسانی سرگرمیوں اور موسمی تغیرات کی وجہہ سے ہوتا ہے۔ صحر ا بندی کا مطلب موجودہ صحراؤں کی توسیع نہیں ہے۔

ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ خشک زمینی ماحولیاتی نظام‘جو دنیا کے ایک تہائی رقبے پر محیط ہے جوزیادہ استعمال او رنامناسب استعمال کے لئے انتہائی خطرے سے دوچار ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق غربت‘ سیاسی استحکام‘ جنگلات کی کٹائی‘ حد سے زیادہ چرائی او رآبپاشی کے غلط طریقے زمین کی پیدوار صلاحیت کو کم کرسکتے ہیں۔

صحر ا بندی اورخشک سالی سے نمٹنے کا عالمی دن ہرسال17جون کو منایاجاتا ہے‘ تاکہ صحر ا بندی سے نمٹنے کے لئے بین الاقوامی کوششوں کے بارے میں عوامی آگاہی کو فروغ دیاجاسکے۔

جب زمین انحطاط پذیر ہوتی ہے اور پیدوار ی ہونا بند کردیتی ہے توقدرتی جگہیں بگڑ جاتی او رتبدیل ہوجاتی ہیں۔اقوام متحد ہ کے مطابق ہریالی میں اضافہ گیس کے بڑھتے اخراج کو کم کرتے ہوئے بائیو ڈائیورسٹی میں کمی جس کا مطلب زونوس کا خلاء میں پھیلاؤ ہے‘ جیسا کہ کویڈ19اور اس سے بچاؤ ہے جو شدید موسمی واقعات سے بچاتا ہے۔

یو این کے مطابق تمام قسم کے ممالک کو خشک سالی سے پہلے متاثرہورہے ہیں‘ جو تمام قسم کے جغرافیائی کے عالمی فوڈ نظام‘صحت‘ معیشت اور سماجی ترقی پر منفی اثرات پڑرہے ہیں‘۔

اس وقت تک یہ ’رحجان جاری رہنے کا امکان ہے“ جب تک اس خشک سالی کے مسلئے سے نمٹنے کے لئے سرمایہ کاری کو لازمی نہیں کیاجاتا ہے۔مذکورہ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2050تک مذکورہ تین چوتھائی دنیا کی آبادی اور نصف عالمی اناج کی پیدوارپانی کی شدید قلت کا شکار ہوجائے گی۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ’خشک سالی ایک سست شروع ہونے والی آفت ہے“۔ خشک سا لی کا اثر خواتین اور مقامی کمیونٹیوں کی قوت مدافعت پر پڑے گا۔