دہلی کی جیت کے بعد عآپ لیڈر نے کہاکہ’دو کروڑ رائے دہندوں نے بی جے پی او رامیت کو دیا جھٹکہ‘

,

   

اوکھلا کے بشمول شاہین باغ مذکورہ احتجاجی دھرنے کا مرکز جہاں پر شہریت ترمیمی قانون کے خلاف تقریبا دو ماہ قبل احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے او ر اس کی مخالفت میں بی جے پی کی اعلی قیادت کی نگرانی میں مرکزی یونین اور مقامی اراکین پارلیمنٹ نے اپنی انتخابی مہم میں شدت سے اسکی مخالفت کی ہے

نئی دہلی۔عام آدمی پارٹی (ا ے اے پی) کے امیدوار امانت اللہ خان کی اوکھلا سے تاریخ ساز کامیابی سال2020کے فیصلے کی کہانی حلقہ کے شاہین باع سے کہہ جارہی ہے۔ سیاسی مخالفین کے لئے انقلاب کی سڑک اور ”مخالف ملک“ بن گیاتھا اور حزب اختلاف بی جے پی نے جس کواپنا سیاسی موضوع بنا لیاتھا۔

اس بات کے یقین نے کے لئے سال2015میں عآپ کی اوکھلا سے جیت 64,000ووٹوں سے بڑھ کر اس مرتبہ74,000ہوگئی ہے کیونکہ خان نے اپنے قریبی بی جے پی کے امیدوار برہم سنگھ کو شکست دی ہے اور ایک مرتبہ تو یہ تناسب91,000کے ریکارڈ تک پہنچ گیاتھا۔

اوکھلا کے بشمول شاہین باغ مذکورہ احتجاجی دھرنے کا مرکز جہاں پر شہریت ترمیمی قانون کے خلاف تقریبا دو ماہ قبل احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے او ر اس کی مخالفت میں بی جے پی کی اعلی قیادت کی نگرانی میں مرکزی یونین اور مقامی اراکین پارلیمنٹ نے اپنی انتخابی مہم میں شدت سے اسکی مخالفت کی ہے۔

خان کو 66.03فیصد ووٹ ملے جو پچھلے مرتبہ کے 51.06فیصد سے زیادہ ہے۔صرف ایک امیدوار متیامحل میں خان سے زیادہ ووٹ تناسب حاصل کرنے والے رہے ہیں۔ شاہین باغ سی اے اے کے خلاف احتجاج کی مثال بن گیاہے جہاں پر بے شمار خواتین دوماہ کے قریب سے علاقے میں احتجاجی دھرنے پر بیٹھے ہیں‘

اور کئی لوگ شہر بھر کے ان سے وہاں پر جڑرہے ہیں جہاں پر اس سڑک کو بند کرکے دھرنے پر یہ لوگ بیٹھے ہیں جو کالیندا کنج کے ذریعہ دہلی اور نوائیڈا کو جوڑنے کاکام کرتی ہے۔

شاہین باغ سے محض 2کیلومیٹر کے فاصلے پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ جامعہ نگر کے رہائشیوں کی مدد سے اسی کا طرح کا احتجاج کررہے ہیں جو یونیورسٹی کی باہر کی سڑک پر سی اے اے کے خلاف جاری ہے۔

رائے دہی کے قریب کے ہفتوں میں بی جے پی کے امیدوار برہم سنگھ نے اپنی انتخابی ریالیوں میں کہا کہ مذکورہ احتجاجی اوکھلا اسمبلی حلقہ کے سینکڑوں اورہزاروں راہ گیروں کے لئے مشکلات پیدا کررہے ہیں اس کے علاوہ احتجاجی دھرنے کی وجہہ سے بند سڑک کے سبب شہر میں ٹریفک درہم برہم ہوگیاہے۔

اسی طرح کی بیان بازیاں بی جے پی کی مہم میں دیکھائی دیتی رہیں‘ بعض قائدین کی آواز تھی کہ شاہین باغ”انتشار“ کا سبب بن رہا ہے اور دیگر کہہ جیسے مغربی دہلی کے ایم پی پرویش ورما نے کہاکہ احتجاجی لوگوں کے گھر وں میں داخل ہوجائیں گے ”اور ان کی بیٹیوں او ربہنوں کی ”عصمت ریزی او رقتل“ کردیں گے۔

ورما کے اس کے بیان پر الیکشن کمیشن نے کاروائی بھی کی تھی۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے رائے دہندوں پر زوردیاکہ وہ ای وی ایم بٹن اس قدر زور سے دبائیں کہ برقی کی جھٹکے شاہین باغ میں احتجاج کررہے مظاہرین کو جاکر لگے۔

مظاہرین کی مسلم شناخت کرتے ہوئے بی جے پی ماڈل ٹاؤن سے امیدوار کپل مشرا نے کہاکہ 8فبروری کا الیکشن دہلی کی سڑکوں پر”ہندوستان اور پاکستان“ کے درمیان ایک میاچ ہوگا۔

بی جے پی مسلسل کانگریس اور اے اے پی کو احتجاجیوں کے ساتھ جوڑتی رہے اور ان پر حوصلہ افزائی کرنے‘ پیسہ فراہم کرنے کا الزام کرتی ہے‘

وہیں چیف منسٹر اروند کجریوال جو ایک مرتبہ بھی احتجاج کے مقام پر نہیں گئے تھے نے بی جے پی پر الزام عائد کیاکہ وہ انتخابات تک دھرنے ہونے دے گی تاکہ رائے دہندوں کے پولرائزیشن کے ذریعہ سیاسی فائدہ اٹھاسکے۔

اوکھلا میں جہاں پر 330915رائے دہندے ہیں دہلی میں ایسا چھٹا اسمبلی حلقہ ہے جہا ں پر مسلم آبادی 40فیصد سے زیادہ رائے دہندوں پر مشتمل ہے۔

مذکورہ مسلم اکثریتی والے علاقے جامعہ نگر کے علاوہ ذاکر نگر‘ شاہین باغ‘ باٹلہ ہاوز اورعبدالفضل انکلیو پر مشتمل ہیں۔ یہاں پر کئی ہندو اکثریتی والے علاقے بھی جس میں سریتا وہار‘ جاسولا‘ سکھ دیو وہار اور نیو فرینڈس کالونی شامل ہے۔

منگل کے روز جیسے ہی گنتی شروع ہوئی بی جے پی کے سنگھ 3838ووٹو ں سے آگے تھے جبکہ خان کو دوسرے روانڈ میں 2399ووٹ ہی ملے تھے۔انہو ں نے تیسرے روانڈ میں بھی 194ووٹوں کی چھوٹی مارجن ملے جس ان کی سبقت میں شامل رہی۔

مگر جیسے ہی گنتی کا سلسلہ شروع ہوگیا خان نے بڑی تعداد میں ووٹ لینے شروع کردیاتھا اور مثال کے طور پر پانچویں روانڈ میں انہیں 7567ووٹ ملے تو سنگھ کو صرف 24 ووٹ اور دسویں روانڈ میں انہیں 8721ووٹ ملے تب سنگھ کو محض 25ووٹ ہی ملے تھے۔

انہوں نے یونین ہوم منسٹر کے تبصرے کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ”ہندو او رمسلمان دونوں رائے دہندوں نے مجھے ووٹ دیاہے اور انہوں نے نفرت کی سیاست پر ترقی کے انتخاب کا ثبوت پیش کیاہے۔

دوکروڑ رائے دہندوں نے امیت شاہ اور بی جے پی کو جھٹکا دیدیا ہے“۔ منگل کے روز جب نتائج کا اعلان کیاگیا اور خان کو جیت کو بھاری سبقت سے جیت کی جانکاری ملی تب گنتی کے مرکز پر ان کے حمایتی رقص کرنے لگے۔

ایک دوسرے طرف اے اے پی اپنے پارٹی چیف اروندر کجریوال کی جیت کا جشن منایاجارہا تھا جہاں پر وہ دہلی کے لوگوں کا شکریہ ادا کررہے تھے۔ مگر شاہین باغ میں مظاہرین خاموش تھے۔

کئی لوگوں نے اپنے منھ بند کر رکھے تھے۔ مذکورہ خواتین نے کہاکہ یہ جامعہ نگر سے پرامن مارچ نکالنے والے طلبہ پر پولیس کی بربریت کے خلاف یہ احتجاج کیاجارہا ہے۔

مظاہرین نے میڈیا سے بات کرنے سے منع کردیا۔ انہو ں نے کہاکہ وہ کسی سیاسی پارٹی کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔

سنٹرل اسٹڈیز برائے ترقی یافتہ معاشرے سے تعلق رکھنے والے ایک تجزیہ نگا ر پروین نے کہاکہ فیصلے کے پس پردہ عوامل میں سے ایک بی جے پی کی ”ریورس پولرائزیشن“ کی مہم ہے کیونکہ نئے شہریت قانون کے متعلق مسلمانوں میں ایک قسم کی الجھن او ربے چینی پائی جاتی ہے۔

رائے نے کہاکہ ”مذکورہ بی جے پی کی ہندو مسلم موضوعات پر انتخابی مہم نے ردعمل پیدا کیا۔اسی وجہہ سے جوابی پولرائزیشن بنا‘ عآپ کی حمایت اور بی جے پی کی مخالفت میں رائے قائم ہوئی۔ پہلے سے وہ لوگ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف الجھن کاشکار رہے۔

انہوں نے واضح کرلیاکہ کانگریس کے لئے کوئی بھی ووٹ منقسم ہوجائے گا اور اس کے نتیجے میں بی جے پی کو فائدہ ہوگا۔

دوسرا زیادہ تر مسلم اکثریتی علاقوں میں بہتر اسکولس‘ اسپتال‘ پانی کے کنکشن‘ سیور کنکشن وغیرہ کی ضرورت ہے اور انہیں عآپ کی شکل میں یہ مقامی مسائل کا حل نظر آیا“۔