دہلی کے ایک کونے میں‘ایک جنگ ہندوستان کے لئے

,

   

دہلی کے شاہین باغ میں سی اے اے‘ این آرسی‘ اور این پی آر کے خلاف احتجاج پیر کے روز سولہویں دن میں پہنچ گیا


تاثیر احمد”یہ احتجاج اس وقت ہی ختم ہوگیا جب حکومت قدم پیچھے لے گی اور سی اے اے برخواست کرے گی۔ اگر حکومت واپس نہیں لے گی تو اس میں اضافہ ہوگا‘ یہ لڑائی ہندوستان کی ہے“


بابو خان(پیش پیش)”میں نہیں جانتا میں کہاں پیدا ہوتھا‘ میرا بچپن ہریانہ کے گاؤں میں گذرا اور یہاں پر باقی کی زندگی۔ میں 78سال کا ہوں‘ کیا میں اس عمر میں اپنی شناخت ثابت کرنے کے لئے دستاویزات کی تلاش میں دربدر بھٹکوں؟میں یہاں سے ہوں“

احتجاجی دھرنے سے ایک اسکولی لڑکی نے حکومت کو دیاپیغام

غوث محمد (سنٹر)”مذکورہ سی اے اے لوگوں کومنقسم کرنے اور غریبوں پر ہتھوڑا مارنے کی سازش ہے اور ساتھ میں انہیں پیپر ورک کے لئے دوڑ دھوپ کرانا منشا ء ہے۔

کون ہوتے ہیں وہ جو ہمیں ہمارے پیپرس کے متعلق استفسارکرتے ہیں‘ جبکہ وہ ووٹر کارڈس کو بھی تسلیم نہیں کرنا چاہتے جس سے انہوں نے یہ الیکشن جیتا ہے؟تمام لوگوں سے میری درخواست ہے وہ کوئی پیپر داخل نہیں جو ہوگا دیکھا جائے گا“۔

عامر جو فی الحال کیرالا میں کام کررہے ہیں احتجاجی دھرنے میں پہنچے۔ انہوں نے کہاکہ”یہ بھی قابل ستائش ہے کہ انہوں نے یہ اتنے دنوں تک روکے رکھا ہے‘ مگر یہ تمام بے سمت بدقسمتی سے کہیں نہ کہیں جارہے ہیں“

بریکٹس کے پاس ایک مقامی معمر ”اگر ہم اب اس کے لئے جدوجہد نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟۔ یہ جدوجہد ہماری نوجوان نسلوں کی حفاظت کے لئے ہے۔

انشومن موہنتی”میں یہاں پر اس لئے کیونکہ میں چاہتاہوں ہمارے ائین اور ہمارے ملک کو بچانے کے لئے جو لوگ جدوجہد کررہے ہیں ان کاحصہ بنوں“

احتجاجیوں کی نظر میں وزیراعظم