رشتۂ عشق بھی ہے یاد کی زنجیر بھی

   

مولانا عبدالعلیم کوثر ؔ (ابن القمرین مکتھل)
مولانا محمد الیاس صاحب انجم قاسمی ؒ سے پہلی ملاقات ۷۵ ۱۹ء؁میں مدرسہ مدینۃ العلوم محبوب نگر میں ہوئی ،چند ہی دنوں میں دوستی گہری ہوگئی،اساتذہ کی خدمت اور ان کی زجر و توبیخ سے ہمارے اشتراک کی ابتداء ہوئی،میرے حفظ کی ابتداء تھی اور وہ مجھ سے کچھ آگے تھے،آپ کی مولویت کی ابتداء سبیل الرشاد سے اور میری رحمانیہ میںشروع ہوئی ،پھر دارالعلوم دیو بند میں دورۂ حدیث میں دونوں کا ساتھ رہا ، اسی زمانہ میں طلباء کی انجمن میں دونوں ہی کے جوہر کھلے، تقریر و تحریر میں ہر ہفتہ،مہینہ میں دونوں کی شمولیت یقینی تھی…!
یہ حقیقت ہے کہ ذرائع علم کتاب،استاذ کے علاوہ بہترین ساتھی ہوتے ہیں،ساتھیوں میں خوشگوار تعلقات ،فرق مراتب کا خیال،اور کچھ کر گزرنے کی فکر ہوتو ایک حوصلہ افزا ماحول سا بن جاتا ہے،جمود ختم ہوتا ہے ،قوت تمیز کی افزائش ہوتی ہے ،پھر ادراکات میں اضافہ ہوتا ہے ،پھر وہ مسابقت شروع ہوتی ہے جو ذہن و دل کو جلا بخشتی ہے،علامہ اقبال کی وصیت کو تعبیر مل جاتی ہے،تو رہ نورد شوق ہے منزل نہ کر قبول۔
فراغت کے بعد آپ مکتھل تشریف لائے،چونکہ مدرسہ فیض العلوم حسینیہ میں حضرت شاہ صاحب اکیلے ہی تھے ،آپ کی آمد کے بعد مدرسہ میں ضابطگی شروع ہوئی،اور مدرسہ کا یہی سنہرہ دور تھا کہ اس زمانہ کے طلباء آج بھی اپنی صلاحیت اور صالحیت میں یکتا نظر آتے ہیں۔
مولانا کے تقرر کے دو سال بعد بندہ کو بھی وہیں جگہ مل گئی،میرے شعور کو آگہی مل گئی،…لا اُبالی طبیعت،اور خاندانی زعم کے مریض ایک سندیافتہ کو آدمیت کے دائرہ میں لانے کے لئے تکوینیات نے میرے لیئے مولانا الیاس انجم کی معیت مقدر کی۔یہی میرے لیئے خضر راہ بنے۔
حضرت شاہ صاحب کی سرپرستی میں تھے لیکن میں شاہ صاحب کی طبیعت سے کوسوں دور تھا،غیر محسوس طریقہ کار نے میری زندگی کا رخ بدل دیا،اسی لیئے میں نے ان کا نام ’’ پیر مغاں‘‘ رکھا تھا۔
دو سال کی مسلسل معیت نے ایک دوسرے کے مزاج،موقف کو اچھی طرح انگیز کرلیا تھا،معاصرانہ چشمک کے فطری اصولوں کو ہم نے بھی اپنایا، تفرد ،تفوق اور تعلی میں مجھے یاد ہے کبھی بھی سرپرست خاص کے مشرب کو شرمندہ ہونے نہیں دیا،ہماری ہر بیٹھک میں طنز و مزاح ایک لازمی جز ہوتا،جس پر شاہ صاحب کی خاموشی اور مسکراہٹ سے تربیت ہوتی۔علمی تفوق کے لیئے استحضار اور استحضار کے لیئے کثرت مطالعہ کی شرط پر دونوں کی پابندی جنون کی حد تک تھی،ہر نئی کتاب کا راتوں رات مطالعہ اور صبح دم اس پر نقد و تبصرہ کا سلسلہ مدت دراز تک چلتا رہا،اپنی آمدنیوں کا بیشتر حصہ کتابوں اور رسائل پر خرچ ہوتا،مطالعہ کا چسکا ایسا پڑگیا تھا کہ دیوبند اور دلی کی کتابوں کی قیمت اور اس کے انتظار کا تحمل نہ ہوتا تو بس اسٹائنڈوں سے ڈائجسٹوں کا سلسلہ شروع ہوا،پھر آپسی مفاہمت سے کچھ رسائل وہ منگواتے کچھ میں لیکن جب تک خود مطالعہ نہیں کرلیتے دوسرے کو نہیں دیتے،میرے والد محترم صدر مدرسہ ڈاکٹر شیخ چاند صاحب ؒ علم پرور شخصیت تھے ان کی منگائی ہوئی کتابیں اور رسائل کی جلد بندی اور نمبر سازی ایک صاحب علم بلکہ کرم کتابی کا ہی کارنامہ ہوسکتا ہے،جو آئندہ نسلوں کے لئے آ ج بھی مدرسہ فیض العلوم حسینیہ مکتھل میں محفوظ ہے۔
ایک دوسرے کے مبلغ علم سے واقف تھے،لیکن خلوص و نیت عمل کا کوئی پیمانہ نہیں ہوتا،دونوں کا قیام دارلاقامہ میں ہی تھا،رات دیر گئے مطالعہ کے بعد سو جاتے،فجر کی اذان کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل جاتی تو آپ کو حفظ کے طلبا کے درمیان پاتا،چہرے پر تہجد کی نشاط،اور اورد و وظائف کا شغل جاری رہتا،فجر بعد درس قرآن ہوتا۔محبوب نگر میں ہمارے ایک مشترکہ دوست ہیں ،ایک دن ان سے ملنے ان کے گھر گیا،معلوم ہوا درس قرآن میں ہیں ، ملاقات پر طنزیہ انداز میں پوچھا اچھا آپ فلاں کے درس قرآن میں تھے،،خفت مٹاتے ہوئے کہنے لگے ظالم بڑا گہرا مطالعہ رکھتا ہے۔ اور اس کی بات بھی دل پہ اثر کرتی ہے۔
سرسری مطالعہ کا وقتیہ فائدہ ہفتہ واری مقرر کو ہوتا ہے،لیکن فکر اور بصیرت سے خالی ان حضرات کی اپنی کوئی سوچ کوئی فکر نہیں ہوتی،اخذ و نقل پہ کام چلتا رہتا ہے،لیکن میرے پیر مغاں کی بات ہی کچھ اور تھی،بر وقت کسی بھی موضوع پہ سیر حاصل بات کا ملکہ تھا اور یہ جوہر مخاطب کی صلاحیت کے مطابق کھلتا …مولوی برادری میں علمی بحثیں کم ہی ہوتی ہیں ،لیکن جب کبھی ہوتی تو حرف آخر آپ ہی کی بات ہوتی، … درس نظامی تدریسی مشاغل میں نہ ہونے کے باوجود حوالے جات ظن غالب پہ نہیں بلکہ یقین کامل پر دیتے،خارجی مطالعہ نے آپ کو ہم عصروں میں ممتاز مقام پر رکھا تھا۔
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے، خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر… طبیعت میں غیر معمولی سادگی تھی،کوئی تصنع نہیں تھا،نخرے نہیں تھے،کسی جگہ کا وعدہ کیا ہو تو داعی کے برابر فکریں ہوتی،یہ نہیں کہ بار بار یاد دہانی کروائیں،فون کریں،گاڑی بک کریں، وضع داری ایسی کہ کبھی موقع،عمراور موسم کے خلاف لباس نہیں پہنا،
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو،سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر… ادبی ذوق پھر طبیعت کی موزونیت نے طبع آزمائی پر مجبور کیا … لیکن ہجوم کار نے اس طرف خاطر خواہ توجہ کا موقع نہیں دیا،ورنہ آج صاحب دیوان ہوتے،دیو بند کے زمانہ میں تضمین اور ترمیم سے بزم آرائیاں چھٹیوں کا لطف دو بالا کردیتی تھیں۔
جودت طبع نے خطاط بنا دیا تھا، خود ساختہ تھے لیکن شہ پارے تخلیق کرتے تھے، اس فن میں کسی کے شاگرد نہ تھے لیکن سینکڑوں شاگرد بنالیئے، صرف نستعلیق میں مشق کرتے اور کرواتے تھے، آج بھی ان کے شاگرد ان شہ پاروں کو اپنی پرانی یادوں کے خزینہ ’’نہاں خانہ دل ‘‘ میں محفوظ کیئے ہوئے ہیں ۔ طبع سلیم نے بہت پہلے مغفرت کا ساماں کرلیا تھا،فرائض منصبی کے بعد فارغ اوقات میں طلباء سے نعت خوانی کرواتے،تلفظ ٹھیک کرتے،طرز اور لحن کا ریاض کرواتے،خود اپنی سریلی آواز سے سماں باندھتے،آپ کی پڑھی ہوئی نعت’’آبروئے کائنات الصلواۃ والسلام، شمع بزم شش جہات الصلواۃ والسلام‘‘زبان زد خاص و عام ہے۔
آخری ایام میں دواخانہ میں ملنے گیا،دلجوئی کے لئے دوسرے تکلفات کے ساتھ کچھ رنگین قلم اور کاغذ دیا تھا،مقصد تھا کہ بیماری کی طرف ذہن نہ جائے، قادر مطلق مدارج دارین بلند فرمائے صرف ایک ورق استعمال کیا اور اس پر میری ہی دلجوئی کرتے ہوئے میرا ہی نام مع القاب بہترین تزئین کاری کے مجھے ہی تھما دیا،نفس مطمئنہ کی مثال نے پھر اپنا رخ بدل لیا،حاضری کے استحضار نے ان تعبد اللہ کانک تراہ کے مدارج طئے کرتے ہوئے مبدی و معید سے جا ملے۔
دوستی خواب ہے اور خواب کی تعبیر بھی
رشتۂ عشق بھی ہے یاد کی زنجیر بھی