سری نگر کے سناٹے میں یہی آواز گونج رہی ہے’دہلی کو کشمیر چاہئے‘ کشمیری نہیں“؟۔

,

   

جموں اور کشمیر۔ کشمیر وادی میں مارکٹس اور دوکانیں‘ اسکول او رکالجس بند ہیں‘ سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں اور وہاں پر مصلح جوان تعینات ہیں صرف اسپتال کے لئے ایمرجنسی سروس جاری ہے۔

سری نگر۔ نئی دہلی کا اقدام کیاہوگا اس پر عام طور سے کشمیریو ں کے چہروں پر دوطرح کے تاثرات تھے غصہ او رتوقع۔

مگر جیسا ہی ارٹیکل370کو ختم کرنے اور جمو ں اور کشمیر کو دو یونین ٹرٹیریز میں تبدیل کرنے کے متعلق نئی دہلی کا فیصلہ منگل کے روز منظرعام پر آیا‘ ان کے چہروں پر شکست کے تاثرات واضح طور پر دیکھائی دینے لگے

۔ سری نگر کے لال چوکے قریب رہنے والے ایک 45سالہ الکٹرانک انجینئر سعید خان نے کہاکہ ”اب ہم سے کوئی رائے جاننے کا کیا مطلب رہ گیا ہے؟ تمام چیزیں تو ختم ہوگئیں“۔

YouTube video

کشمیر کا درالحکومت ایک ماضی کا شہر بن گیا اور خان کے جذبات کی عکاسی کئی لوگوں کی لبوں سے ادا ہونے والے جملے کررہے ہیں۔ باٹ ملاؤ کے ایک میوہ فروش وہ مقام جہاں پر ایک والد اپنے بیٹے کے ساتھ عیدگاہ کے قریب ایک سنسان علاقے سے گذرہا ہے اور ایک پولیس والا وہاں پر لگے حصار کے پاس رام باغ میں کھڑا ہوا ہے۔

عملی طور پر اتوار کے روز سے ہی وادی میں رابطہ ختم کردیاگیا ہے او رانٹرنٹ سروسیس ختم کردی گئی ہیں‘ امتناعی احکامات ساری وادی میں جاری کردئے گئے ہیں اور دستوں کی تعیناتی سے سری نگر شہر کو پولیس چھاونی میں تبدیل کردیاگیاہے۔

مارکٹس اور دوکانیں‘ اسکول او رکالجس بند ہیں‘ سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کردی گئیں اور وہاں پر مصلح جوان تعینات ہیں صرف اسپتال کے لئے ایمرجنسی سروس جاری ہے۔

خان نے کہاکہ ”سال2016کی ہلچل کے بعد پچھلے سال حالات بڑی بے دردی سے تبدیل ہوئے‘ علیحدگی پسند جیل میں ہیں۔

یہاں پر کوئی ہڑتال نہیں ہے‘ بڑی مشکل سے پتھر بازی کے واقعہ رونما ہورہے ہیں‘ اسکولوں میں کام چل رہا ہے‘ دوکان کھولی رہیں‘ سیاحوں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ہر کوئی خوش تھا۔ ان کے ساتھ جو تھا وہ ہر کشمیری ایک ہی وار میں پریشان ہوگیا ہے۔

میں نہیں جانتا کہ کب او رہم کیسے اس فیصلے سے باہر ائیں گے“۔

سرائے بہل سے ایک کیلومیٹر دورامتیاز عنوانی ایک بی اے سال اول کا طالب علم جو ساوتھ کشمیر کے لان گیٹ سے تعلق رکھتا ہے حیران اور غصہ میں ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ ”سیاسی دوری کے ساتھ کشمیرایک آتش فشا ں بن گیاہے۔

انہو ں نے لوگوں نے عمر(عبداللہ) اور (محبوبہ) مفتی کو قید کرلیاہے۔ وہ اب رکن اسمبلی انجینئر راشد کو گرفتار کرنے کی تیاری کررہے ہیں‘ یہ وہ شخص ہے جس نے ہمیں ہمیشہ پتھر بازی سے دور رہنے کی ترغیب دیتارہا۔

اور اب یہ۔ان لوگوں نے ڈھکن کھول دیاہے“۔ جموں کشمیر کی پولیس بھی حیران ہے۔

ایک پولیس کانسٹبل نے کہاکہ ”میں ایک سرکاری ملازم ہوں۔ احکامات کی پابجائی میری ذمہ داری ہے۔ مگر میں اپنے بیٹے سے کیاوضاحت کروں‘ میں کس طرح اس کو سمجھاؤں کہ مذکورہ ہندوستانی ریاست تمہارے متعلق فکر مند ہے لہذا تم پتھر بازوں میں شامل ہونے سے گریز کریں۔

نونہالوں کا کہنا ہے کہ جب موت ہم پر مسلط کردی گئی ہے تو اسکول جانے کا کیامطلب باقی رہ جاتا ہے“۔

سری نگر میں عیدگاہ سے غائب ہوکر صنعت کار پچھلے بارہ سال سے کلکتہ اور دہلی میں بسے ہوئے ہیں۔ انہو ں نے کہاکہ وہ اپنے گھر والوں کو سری نگر سے باہر لانے کے لئے گئے ہوئے تھے مگر کہاکہ”ایک ہی جھٹکے میں انہوں نے سب ختم کردیا۔

ہندوستان کے ہاتھوں سے کشمیر چلا گیاہے۔ انہوں نے پاکستان کو داخل ہونے کا دروازہ کھول دیاہے۔

پچھلے کچھ سالو ں میں جو کچھ حاصل کیاتھا وہ سب کھودیاہے‘ کشمیریوں کے ساتھ جو رابطہ تھا اس کو انہو ں نے ختم کردیاہے“