غیر حلال گوشت دینے کی پیشکش۔ کرناٹک مسلم گوشت کی دوکان کا مالک

,

   

سید انصار اور اس کے کارکن توصیف نے الزام لگایا ہے کہ بجرنگ دل کارکنان جنھوں نے 30مارچ کے روز انہیں غیرحلال گوشت دینے کی مانگ کی تھی‘ جس کے بعد توصیف کے ساتھ مارپیٹ کی گئی ہے


بنگلورو۔ مارچ30کے روز سید انصاف روزمرہ کی طرح گئے‘ جس وقت اچانک بجرنگ دل کے چند کارکنان ان کی چکن کی دوکان میں داخل ہوئے۔ انہو ں نے انصار سے غیر حلال گوشت مانگ جو درحقیقت ان کی دوکان میں دستیاب نہیں تھا۔

اور جب ان کی مانگ پوری نہیں ہوئی تو بجرنگ دل کارکنوں نے دوکان میں کام کرنے والے ایک فرد کے ساتھ شدید مارپیٹ کی تھی۔درحقیقت انصار نے بجرنگ دل کے غنڈوں کے لئے کسی دوسری دوکان سے غیر حلال (ذبیحہ) چکن لاکر دینے کی پیشکش کی تھی مگر انہوں نے ایک نہیں سنی۔

انصار نے یاد کرتے ہوئے کہاکہ ”بجرنگ دل ممبرس بشمول سری کانت‘ کرشنا او ردیگر میری دوکان میں چہارشنبہ کی دوپہر داخل ہوئے اور میرے اسٹاف ممبر توصیف سے انہیں غیر حلال چکن دینے کا استفسار کیا۔

جب توصیف نے کہاکہ وہ غیرحلال چکن فروخت نہیں کرتے تو انہوں نے اس کے ساتھ مارپیٹ شروع کردی“۔ سیاست ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے انصار نے کہاکہ 15-12بجرنگ دل کارکنوں نے حلال گوشت کی دوکان میں سربراہی پر ہنگامہ کھڑا کیاہے۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ”انہوں نے مجھے غیر حلال چکن ذبح کرنے اور انہیں پیش کرنے کے لئے مجبور کیا۔ میں نے ایساکرنے سے انکار کیا۔ وہ حلال گوشت دور پھینکنا کی کوشش کررہے تھے مگر وہ ایسا نہیں کرسکے“۔

اس دوکان خالی کرانے کی دھمکی تک دی گئی اور غنڈوں سے استفسار کیاکہ حلال چکن فروخت کرنے کی سبب وہ جگہ خالی کردے۔ کرناٹک کے ضلع شیو ا موگا میں 30مارچ کے روز یہ واقعہ پیش آیا اور اور پچھلے کچھ مہینوں سے ریاست میں ہونے والے اسلام فوبیا واقعات میں سے ایک ہے۔

کالج اوراسکول کو حجاب پہن کر جانے والے بیشتر لڑکیاں ہراسانی کا شکار ہورہی ہیں‘ کیونکہ ریاست کے تعلیمی اداروں میں حجاب کے استعمال پر روک لگادی گئی ہے۔ اس کے فوری بعد دیگر واقعات جس کا سامناانصار کو کرنا پڑا ہے۔

انصار کے لئے اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ تھی کہ اسکے ورکر پر حملے کرنے والے غنڈوں نے حتی کہاس کے گاہکوں کے ساتھ بھی مارپیٹ کی۔ انصار نے مزیدکہاکہ ”مگر ایک دن قبل وہ ہماری دوکان توڑ کا سامان سڑک پر پھینکنے والے تھے۔

میری دوکان یہاں پر پچھلے پانچ سالوں سے شیواجی سرکل بھدرواتی پر ہے او رماضی میں اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیاہے“۔ آخرکار سید انصار نے بجرنگ دل کارکنوں کے خلاف توصیف کے ساتھ مارپیٹ کے لئے ایک شکایت درج کرائی۔

پولیس نے ایف ائی آر درج کرکے انہیں یقین دلایا کہ وہ دوکان واپس کھولیں وہ سکیورٹی فراہم کریں گے“۔ اس کے علاوہ چکمنگلور ضلع کے بجرنگ دل یونٹ نے کچھ دن قبل اوگادی تقریب کے پیش نظر پمفلٹ تقسیم کرتے ہوئے ہندوؤں سے استفسار کیاکہ وہ مسلمانوں کی

دوکان سے حلال گوشت نہ خریدیں۔ انہوں نے گھر گھر جاکر یہ مہم چلائی ہے۔ بجرنگ دل نے ریاست سطح پر مسلمانوں کی چکن کی دوکانوں سے گوشت نہیں خریدنے کی مہم شروع کی ہے۔

اسی طرح مانڈیا میں وشوا ہندو پریشدیونٹ نے بھی مقامی تحصلیدار کو چند دن قبل ایک یادواشت دیتے ہوئے کہا ہے کہ کہ مندروں کے باہر سوائے ہندوؤں کے کسی کو بھی مذہبی تہواروں او رمیلوں کے دوران تقریب کی منظوری نہیں دینی چاہئے۔

ان تمام نفرت پر مشتمل جرائم پر ردعمل پیش کرتے ہوئے بی ایس بومائی چیف منسٹر کرناٹک نے کہاکہ ”بہت سارے اداروں کی جانب سے دیگرپر بعض چیزوں کی ممانعت ہے۔ لہذاہمیں جانا چاہئے کہ اس پر کیاردعمل دیں‘ جہاں توجہہ کی ضرورت نہیں ہے وہاں پر توجہہ نہیں دینی چاہئے“۔

بی جے پی جنرل سکریٹری سی ٹی روی نے حلال کھانے کو ”معاشی جہاد“ سے جوڑدیاہے۔سابق چیف منسٹر او رجے ڈی ایس لیڈر ایچ ڈی کمارا سوامی نے اس طرح کے رحجانات کی مذمت کی اور ہندو نوجوانوں سے کہاکہ وہ ریاست کو ’خراب‘ نہ کریں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے کہاکہ ”میں حکومت سے پوچھنا چاہتاہوں کہ آپ ریاست کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں۔ میں ہاتھ جوڑ کر ہندو نوجوانوں سے کہتاہوں کہ وہ ریاست کو خراب نہ کریں“۔