فوج کی آمد ‘ جموں میں کرفیو کا سلسلہ ہنوز جاری

,

   

جموں/پلوامہ- فدائین حملے پر جموں چیمبر اور بار ایسو سی ایشن کی طرف سے دی گئی بند کال پر جموں میں جگہ جگہ پرتشدد مظاہرے ہوئے اور بلوائیوں نے مسلمان بستیوں کو نشانہ بناتے ہوئے ان گنت تعداد میں گاڑیوں کو نذر آتش کیا جبکہ دیگر املاک کو بھی شدید نقصان پہنچایاگیا۔
حیران کن امریہ ہے کہ یہ سب کچھ پولیس کے سامنے ہوتارہا اور پولیس نے ان بلوائیوں کوتین چار گھنٹوں تک روکنے کی کوشش  نہیں کی ۔اس صورتحال سے جموں میں مقیم مقامی و غیر مقامی مسلمانوں میں شدید خوف و ہراس پایاجارہاہے اور وہ خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔
اگرچہ حالات بے قابو ہوجانے کے بعدانتظامیہ نے دوپہر کے وقت کرفیو نافذ کیا تاہم اس کے باوجود مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا اور عینی شاہدین کے مطابق پولیس اور دیگر فورسز کے سامنے گاڑیوں کو آگ کی نذر کیاگیا۔تشدد اور پتھرائو کے واقعات میں 16 افراد زخمی ہوئے ۔
صوبہ بھر میں انٹرنیٹ خدمات سنیچر کی رات سے ہی منقطع کردی گئیں جبکہ صورتحال کو قابو کرنے کیلئے کرفیو کانفاذ کیاگیا اور ساتھ ہی فوج کی خدمات بھی لی گئیں ۔کئی گھنٹوں کے پرتشددمظاہروں کے بعد پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے کئی جگہوں پر ٹیئر گیس بھی چلائے جبکہ مظاہرین نے پولیس پر پتھرائو کیا۔
عینی شاہدین نے بتایاکہ جمعہ کی صبح جیول چوک میں کچھ افراد نمودار ہوئے جنہوں نے ڈوگرہ چوک، گمٹ ، پریم نگر اور گوجر نگر کی طرف مارچ شروع کیا ،جہاں تشدد اختیار کیاگیا۔عینی شاہدین نے بتایاکہ گوجر نگر میں 25سے زائد گاڑیوں کو جلادیاگیاجبکہ اسی طرح سے پریم نگر میں بھی 30سے زائد
گاڑیوں کو نقصان پہنچایاگیا۔
مخصوص طبقہ کی گاڑیوں کو جلائے جانے کے خلاف گوجر نگر کے لوگ باہر نکلے اور انہوں نے ہجوم پر پتھرائو کیا جس دوران دونوں طرف سے پتھرائو کیاگیا۔تشدد کے واقعات میں 16افراد زخمی ہوئے جن میں سے دو افراد ذرائع ابلاغ سے شامل ہیں، جنہیں گورنمنٹ میڈیکل کالج و ہسپتال جموں زیر علاج رکھاگیاہے۔
بعد میں یہی مشتعل ہجوم وزارت روڈ پر پہنچا جہاں پاکستان مخالف نعرے بازی کرتے ہوئے پانچ سے زائد گاڑیوں کو آگ لگادی گئی ۔یہاں سے ہوتے ہوئے یہ ہجوم گمٹ اور جیول چوک پہنچا جس نے راستے میں دکانوں کے شیشے بھی توڑے جبکہ کئی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا۔
گمٹ میں اکثریتی طبقہ کی بھی کچھ گاڑیوں کو نقصان پہنچایاگیاجبکہ کئی گھروں پربھی پتھرائو کیاگیالیکن پولیس خاموشی سے نظارہ دیکھتی رہی۔ ایک عینی شاہد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایاکہ ایک مخصوص طبقہ کی املاک کو نقصان پہنچانے کیلئے پولیس کی طرف سے تین سے چار گھنٹے کی کھلی چھوٹ دی گئی تھی ۔
جب صورتحال بے قابو ہوگئی اور پورے شہر کی فضا گاڑیوں میں لگی آگ
کے دھوئیں سے بھر گئی تو پولیس نے تب جاکر پرتشدد ہجوم پر لاٹھی چارج کیا اور آگ بجھانے کیلئے فائر سروس کی گاڑیوں کی خدمات حاصل کی گئیں ۔ شام کے وقت جانی پور اور نیو پلاٹ میں پتھرائو بھی کیاگیا۔
پریم نگر سے گوجر نگر تک کے علاقے میں گاڑیوں کو تباہ کردیاگیا اور پورا دن پٹرول ڈال کر ان کو آگ لگائی گئی۔گوجر نگر میں مقیم  پلوامہ ضلع سے تعلق رکھنے والے ایک ملازم نے بتایاکہ انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے یہ تباہ کن مناظر دیکھے کہ پریم نگر سے گوجر نگر تک گاڑیوں کو  کس طرح آگ لگائی گئی اور پورا دن اشتعال انگیز نعرے لگتے رہے مگر پولیس نے اُف تک نہیں کی اور پھر بعد میں گوجر نگر پل پر پولیس اور فوج کی موجودگی میں گاڑیاں نذر آتش ہوئیں ۔
اسی علاقے میں مقیم ایک ملازم کی اہلیہ نے بتایاکہ وہ صبح ساڑھے دس بجے ہوٹل کے کمرے میں تھی کہ اچانک باہر سے شور آنے لگا اور پہلے تو آدھے گھنٹے تک نعرے بازی چلتی رہی لیکن اس کے بعد گاڑیاں جلانے کا سلسلہ شروع کیاگیا اور ان کے سامنے ایک ایک کرکے درجنوں گاڑیوں کو آگ لگادی گئی ۔
انہوں نے بتایاکہ بلوائیوں کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے اور وہ پیٹرول چھڑکتے اور گاڑیوں کو آگ لگاتے رہے ۔
انہوں نے بتایاکہ سڑک کے کنارے مکانات کے دروازوں پر ڈنڈے مارتے ہوئے بلوائی للکارتے رہے کہ کشمیریو باہر نکلو ۔اسی طرح سے وزارت روڈ پر شہیدی چوک اور کے سی پلازہ و گردوانواح میں بھی کئی گاڑیوں کو آگ لگاکر جلادیاگیاجبکہ کئی کے شیشے چکناچور کردیئے گئے ۔ساتھ ہی بس اڈہ اور دیگر علاقوں میں پارک کی گئی کئی گاڑیوں کو بھی آگ کی نذر کیاگیا۔
انتظامیہ نے لگ بھگ ڈھائی بجے کرفیو کا نفاذ کیا اور فوج کے ساتھ ساتھ دیگر فورسز کی خدمات بھی حاصل کی گئیں جس دوران گوجر نگر، شہیدی چوک، جانی پور ، پرانی منڈی ، پکہ ڈنگا، وزارت روڈ، ریہاڑی ، نیو پلاٹ ، گمٹ ، پریم نگر اور نڑوال علاقوں میں فوج اور دیگر اہلکاروں کی تعیناتی عمل میں لائی گئی ۔فوج نے شام کے وقت گوجر نگر، جانی پور ، شہیدی چوک، تالاب کھٹیکاں و دیگر علاقوں میں فلیگ مارچ کئے۔
اس دوران صورتحال کی نگرانی کرنے کیلئے ہیلی کاپٹروں کی خدمات بھی لی گئیں ۔شام تک پورے ضلع جموں میں حالات پر قابوپالیاگیاتاہم حکام نے احتیاطی طور پر انٹرنیٹ خدمات کو بدستور معطل رکھاہواہے جبکہ براڈ بینڈ سروسز کی سپیڈ بھی کم کردی گئی ۔
گاڑیوں کو نذر آتش کرنے کے علاوہ شہر کے کئی علاقوں میں دیگر املاک کو بھی نقصان پہنچایاگیا۔نروال پولیس تھانہ کے قریب واقع ہوٹل تندروی بائٹ کے مالک نے بتایاکہ بلوائیوں نے چن چن کر املاک کو نقصان پہنچایا اور ڈی وائی ایس پی کے دفتر اور پولیس تھانہ کے بالکل قریب میں واقع ان کے ہوٹل کی توڑ پھوڑ کی گئی ۔انہوں نے کہاکہ یہ سب کچھ پولیس کی آنکھوں کے سامنے ہو ااور افسوسناک بات ہے کہ پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی اور صرف تماشادیکھتی رہی ۔
سینئر سیاسی و سماجی کارکن عاشق حسین خان نے بتایاکہ جموں چیمبر کی طرف سے دی گئی بند کال کی سب نے حمایت کی تھی لیکن اس کے باوجود توڑ پھوڑ اور املاک کو نقصان پہنچایاجانا افسوسناک ہے ۔
انہوں نے بتایاکہ گوجر نگر سے جب انہیں کئی لوگوں نے فون کئے تو انہوں نے اس صورتحال کے بارے میں صوبائی کمشنر کو بتایااورکرفیو کے نفاذ کا مطالبہ کیا اور یہ مانگ کی کہ مظاہرین کو مسلمان بستیوں کی طرف نہ آنے دیاجائے جبکہ ڈی آئی جی کو بھی فون کرکے یہی مطالبہ کیاگیالیکن نچلی سطح پر لاپرواہی ہوئی اور پولیس کے سامنے گاڑیوں کو آگ لگادی گئی ۔
انہوں نے کہاکہ ہندومسلم بھائی چارے کو برقرار رکھاجائے اور جن انتہا پسندوں نے یہ کارروائی انجام دی ہے ان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑاکیاجائے ۔تاہم انہوں نے کہاکہ ایسے حالات میں ہندوبرادری کے معززین اور باشعور افراد نے اہم رول ادا کیا اور مسلم نوجوانوں نے بھی صبر سے کام لیا، نہیں تو ایک بہت بڑا حادثہ رونماہوجاتا۔انہوں نے کہاکہ کرفیو کے باوجود لوگ گھوم رہے ہیں لہٰذااس میں سختی برتنے کی ضرورت ہے ۔
جانی پور میں سیول سیکریٹریٹ ملازمین کے رہائشی کوارٹروں پر پتھرائو کیاگیا تاہم وہا ں پولیس اور سی آر پی ایف کی بھاری تعداد میں موجودگی کی وجہ سے صورتحال پر بروقت قابوپالیاگیا۔ مظاہرین نے پتھرائو کرکے رہائشی کوارٹروں اور گاڑیوں کے شیشے توڑ دیئے ۔
اسی طرح سے مٹھی میں بھی ملازمین کے کوارٹروں کے باہر احتجاج اور دھرنے دیئے گئے ۔مٹھی میں ایک ملازم نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایاکہ صبح کے وقت درجنوں نوجوان نعرے لگاتے ہوئے کوارٹروں کے احاطے میں داخل ہوئے تاہم وہاں پولیس کو دیکھ کر وہ نکل گئے لیکن اس کے بعد کوارٹروں کے باہر احتجاج اور دھرنوں کاسلسلہ چلتارہا ۔
اسی طرح سے دیگر رہائشی کوارٹروں والے علاقوں اور ہوٹلوں میں رہ رہے ملازمین میں خوف پیدا کرنے کیلئے ڈنڈا برداروں نے نعرے بازی کی ۔
گوجر نگر میں ایک ہوٹل میں رہ رہے سیول سیکریٹریٹ کے ملازم نے بتایاکہ پورا دن پریم نگر سے لیکر گوجر نگر تک تماشاچلتارہا لیکن پولیس نے بلوائیوں کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھا۔
انہوں نے کہاکہ ان کے سامنے کئی گاڑیاں جل کر راکھ ہوگئیں اور ہوٹلوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کی گئی ۔سیول سیکریٹریٹ سے واپسی پر بھی ملازمین کو شدیدخوف لاحق رہا اور انہیں پھونک پھونک کر قدم رکھناپڑا۔دربار موو ایمپلائز فیڈریشن (نان سیکریٹریٹ )جموں و کشمیرکے صدر اویس وانی نے بتایاکہ ملازمین ہر جگہ غیر محفوظ ہیں اور ان کی کئی گاڑیاں تباہ کردی گئیں۔ انہوں نے گورنر سے اپیل کی کہ ملازمین کو تحفظ فراہم کیاجائے ۔
وانی نے کہاکہ کرفیو نام کا تھا اور اس کے دوران بھی گاڑیوں کو جلانے کا سلسلہ جاری رہا۔ انہوں نے انتباہ دیاکہ اگر ایسا ہی چلتارہاتو ملازمین سرینگر واپس چلے جائیں گے کیونکہ انہیں یہاں خطرہ محسوس ہورہاہے۔
شہر کے تالاب کھٹیکاں علاقے میں دوطبقوں کے درمیان آپسی تصادم ہوتے ہوئے ٹل گیا اور اگر دونوں طبقوں کے معززین کی طرف سے بیچ بچائو نہ کیاجاتا توپھر صورتحال خطرناک ثابت ہوسکتی تھی ۔
عینی شاہدین نے بتایاکہ جب سینکڑوں افراد پر مشتمل ایک ہجوم راجندر بازار اور سٹی چوک میں جمع ہوااوراس نے تالاب کھٹیکاں کی طرف جانے کی کوشش کی تو تالاب کھٹیکاں کے نوجوان بھی مجتمع ہوگئے ۔
اس دوران اس بات کا شدید خطرہ پیدا ہواکہ ابھی تصادم آرائی شروع ہوجائے گی لیکن دونوں طبقوں کے معززین اور باشعور افراد نے مداخلت کرتے ہوئے پیدا ہونے والی کشیدگی کو ختم کرنے میں رول ادا کیا اور پھر بعد میں پولیس اور دیگر فورسز کی مزید نفری بھی موقعہ پر پہنچی جس کو دیکھ کر راجندر بازار اور سٹی چوک میں جمع ہونے والا ہجوم منتشر ہوگیا ۔
راجوری اور پونچھ سے سمت بھارگونے اطلاع دی ہے کہ نوشہرہ ،سندربنی اور کالاکوٹ میں مکمل طور بند رہا جبکہ راجوری ، پونچھ اور مینڈھر  میںجزوی طور پر ہڑتال رہی ۔اس دوران مظاہرین نے جموں پونچھ شاہراہ کو ٹریفک کیلئے معطل رکھا۔
راجوری میں جواہر نگر، مین ٹائون ، گوجر منڈی اور سلانی مارکیٹ بند رہیں اور مظاہرے بھی ہوئے جبکہ گاڑیوں کی آمدورفت بھی روک دی گئی ۔بند کی کال سناتن دھرم سبھا راجوری کی طرف سے دی گئی تھی ۔ضلع کے کالاکوٹ، نوشہرہ اور سندربنی میں مکمل طور پر بند رہااور لوگوں نے پاکستان مخالف نعرے بازی کی ۔
دریں اثناء جموں پونچھ شاہراہ کو سندربنی چوک کے مقام پر بند کردیاگیا جس کی وجہ سے لگ بھگ پانچ گھنٹوں تک گاڑیوں کی آمدورفت معطل رہی ۔لمیڑی کے مقام پر بھی یہ شاہراہ تین گھنٹوں تک بند رکھی گئی ۔ اس کے علاوہ ٹھنڈی کسی ،مراد پور اور دیگر کچھ جگہوں پر بھی شاہراہ پر احتجاج کیاگیا۔ وہیں پونچھ ضلع کا مینڈھر قصبہ اور پونچھ بازارجزوی طور پر بند رہے اور احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں ۔
پونچھ شہر کے آلہ پیر علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا ماحول پیدا ہواجس دوران تصادم آرائی بھی ہوئی تاہم پولیس کی بروقت کارروائی اور لاٹھی چارج و ٹیئرگیس شلنگ کی وجہ سے صورتحال پر قابولیاگیالیکن اس دوران دو گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی گئی ۔
ذرائع کے مطابق آلہ پیر میں اقلیتی طبقہ کی طرف سے اکثریتی طبقہ کی گاڑیوں اور مکانات پرپتھرائو کیاگیا جس کے جواب میں دوسری طرف سے بھی پتھرائو کیاگیا او رعلاقے میں خوف و حراس پیدا ہوگیا۔تاہم پولیس نے ٹیئرگیس اور لاٹھی چارج کرکے دونوں فریقین کو دوردور کیا اور حالات پر قابوپالیاگیا۔
واقعہ کے بعد علاقے میں پولیس اور فورسز کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے ۔
سناتن دھرم سبھا اور بھگواتنظیموں کی کال پربھدرواہ اور کشتواڑ میں جزوی طور پر بند رہا اور مظاہرین نے گاڑیوں کے ٹائرجلاکر پاکستان مخالف نعرے بازی کی ۔ کشتواڑ سے کشمیرعظمیٰ کے نمائندے ڈار محسن نے بتایاکہ پلوامہ واقعہ پر مقامی ہندوتنظیموں کی طرف سے بند رکھاگیا تاکہ اس دوران کسی طرح کاکوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔انہوں نے بتایاکہ ضلع میں کئی مقامات پر مظاہرے ہوئے اورمظاہرین نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کئے ۔
وہیں بھدرواہ سے نمائندے طاہر ندیم خان نے بتایاکہ قصبہ میں سناتن دھرم سبھا اور دیگر تنظیموں کی کال پر بند رکھاگیا اور چونکہ پورے خطہ چناب میں برفباری ہورہی تھی لہٰذا احتجاج اور مظاہروںمیں اتنی زیادہ شدت نہیں دیکھی گئی ۔بھدرواہ میں بھی پرامن طور پر بند رہا۔دریں اثناء رام بن میں بھی پرامن طور پر بند رکھاگیا اور اس دوران دونوں طبقوں کی طرف سے شام کے وقت کینڈل مارچ بھی کیاگیا۔