قران

   

نیکی (بس یہی ) نہیں کہ (نماز میں ) تم پھیر لو اپنے رخ مشرق کی طرف اور مغرب کی طرف بلکہ نیکی (کا کمال ) تو یہ ہے کہ کوئی شخص ایمان لائے اللہ پر اور روز قیامت پر اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور سب نبیوں پر … (سورۃ البقرہ۔ ۱۷۷ ) 
ہر دین میں بعض ظاہری اعمال ہوتے ہیں اور بعض حقیقی مقاصد کیونکہ ان ظاہری اعمال سے انسان دین کے حقیقی مقاصد تک آسانی سے پہنچ سکتا ہے اس لئے ان ظاہری اعمال کی بجا آوری نہایت ضروری ہوتی ہے۔ جب تک قوم دین کا دامن مضبوطی سے تھامے رہتی ہے۔ وہ ان ظاہری اعمال اور حقیقی مقاصد دونوں کو پیش نظر رکھتی ہے اور دونوں کو یکساں اہمیت دیتی ہے لیکن جب دین کا ولولہ سرد پڑ جاتا ہے تو آہستہ آہستہ حقیقی مقاصد آنکھوں سے اوجھل ہونے لگتے ہیں اور قوم صرف ظاہری اعمال کی ادائیگی کو کافی سمجھنے لگتی ہے ۔ مثلاً نماز اور روزہ اسلام کی بنیادی عبادات میں سے ہیں لیکن حضور رحمۃ للعلمین (صلی اللہ علیہ وسلم) نے نماز کے متعلق ارشاد فرمایا کہ جو نماز نمازی کو بدکاری سے باز نہ رکھ سکے وہ نماز اسے خدا سے اور زیادہ دور کر دے گی۔ روزہ سے متعلق ارشاد ہے روزے دار اگر جھوٹ بولنے اور اس پر عمل کرنے سے باز نہ آئے تو اللہ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس آیت کریمہ میں اسی حقیقت کو کھول کر بیان فرمایا گیا ہے تاکہ امت مسلمہ پہلی امتوں کی طرح چند ظاہری اعمال پر ہی قانع نہ ہو جائے اور نیکی اور طاعت کو انہی میں منحصر نہ سمجھ بیٹھے۔ صاحب تفسیر مظہری لکھتے ہیں کہ لَیْسَ الْبِرَّ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مقررہ سمت کی طرف منہ کرنا نیکی اور طاعت ہے ہی نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکی صرف اسی میں منحصر نہیں یہ بھی نیکی ہے اور اس کے علاوہ اور بھی نیکی اور اطاعت کے کام ہیں جو حقیقی مقاصد ہیں اور تمہاری توجہ کے زیادہ مستحق ہیں ۔