لاک ڈاؤن سے سی او وی ائی ڈی19کو ختم کیاجاسکتا ہے مگر ہندوستان میں جو اسلام فوبیاکا وائرس پھیل گیا ہے اس کو ختم نہیں کیاجاسکتا ہے

,

   

اگر سال2018اور2019فرقہ وارنہ زیادتی کے سال رہے ہیں‘ تو 2020عالمی وباء کے لئے ملک میں ہندومسلم عینک کے ذریعہ دیکھا جانے والے سال تھا۔
جہدکار اکرم اختر کا گھر اترپردیش کے شاملی میں ہے‘ جب 5اپریل کے روز رات کے نو بجے گ‘ اور وزیراعظم نریندر مودی کی اپیل پر لوگ اپنے گھروں کے باہر نکل کر نو منٹ کے لئے برقی گل کرکے چراغ او رمو م بتیاں جلائی تو شوروغل بڑھ گیاتھا۔

انہوں نے کہاکہ ”وہاں پر جئے شر ی رام کے نعروں کی گونج تھے‘ پٹاخے جلائے جارہے تھے اور.315کی دیسی ساختہ پستول سے ہوائی فائرینگ کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ مندر سے گھنٹیاں بجنے کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں اور لاؤڈ اسپیکر سے بھگتی کی گیت سنائی دے رہے تھے“۔

ملک کے دیگر حصوں میں بھی مودی نے عوام سے کہاتھا کہ ”کرونا وائر سے مقابلے کی یاد میں“ اپنے گھروں کی برقی بند کرکے چراغ‘ موم بتی اور ٹارچ جلائیں جس کو ہندوؤں کی اکثریت نے غلط تسلیم کرلیاتھا۔

اس بات سے حیرا ن ہوکر کے کہیں کوئی فرقہ وارانہ تشدد تو نہیں ہوا ہے‘ اختر اپنی موٹر سیکل نکال کر پڑوس کے مسلم علاقوں میں پہنچے۔ان کا کہنا ہے کہ ”وہاں پر اندھیرا اور خاموشی تھی۔ جس طرح دوسری دنوں میں رہتی ہے‘ کوئی ایک فرد بھی سڑک پر نہیں تھا“۔

انہوں نے مزیدکہاکہ یہ ایسا خوف تھا جو حال ہی میں اترپردیش پولیس کی جانب سے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے شہریوں میں تھا
کرونا نے مسلم نفرت کی آگ میں تیل کاکام کیاہے

ڈسمبر سے ملک کی مقبول ریاست میں مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کی‘ہزاروں کو تحویل میں لینے‘ گھروں پر دھاوے کرنے او ریہاں تک کے نئے قانون کے خلاف احتجاج کررہے لوگوں پر گولیاں چلانے کے واقعات تک رونما ہوئے تھے‘جس نے ہندوستانی شہریوں کو مذہبی خطوط پر منقسم کردیاتھا۔

”کرونا وائرس کے آنے کے بعد ہندوستان میں مسلم بنے رہنا اور خطرناک ہوگیاتھا“

مودی کے قومی لاک ڈاؤن کے اعلان سے قبل دہلی میں منعقدہ تبلیغی جماعت کے اجلاس میں شرکت کے بعد جانچ میں مثبت پائے جانے‘ جان بوجھ کرونا وائرس پھیلانے کے مسلمانوں کے خلاف جان بوجھ کر فرضی خبریں پھیلائیں جانے لگی ہیں۔

جسکی وجہہ سے ہندوستان میں کروناجہاد کا ہیش ٹیگ اور اسلام فوبیاگشت کرنے لگاجس کو دنیا نے دیکھا ہے۔نفرت انگیز افواہوں کا اشارہ بات سے ملتا ہے کہ یوپی پولیس کو بھی حقائق کی جانچ کے لئے مجبورہونا پڑا ہے

۔سہارنپور میں جو شاملی سے 62کیلومیٹر کے فاصلے پر ہے پولیس نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس بات سے انکار کیاہے کہ رام پور میں جماعتی لوگوں کو قرنطین میں رکھا گیا ہے‘ یہ افواہ کھڑی کی گئی تھی کہ انہیں کھانے میں سبزی دی جارہی ہے اور وہ کھلے عام باہر گھوم رہے ہیں

فرضی خبریں اور حقیقی نقصان
مذہبی تنظیم جماعت علمائے ہند نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے فرضی خبروں کے پھیلاؤ پر روک لگانے کے اقدامات اٹھانے کی درخواست پیش کی اور نفرت پھیلانے کی کوشش کرنے والے میڈیا ہاوزس پر لگام لگانے کی اپیل کی ہے۔

مذکورہ تنظیم نے کہاکہ تبلیغی جماعت کے اجتماعی کو ساری مسلم کمیونٹی کے لئے بدنامی کا ہتھیار بنایاجارہا ہے۔

اگر سال2018اور2019فرقہ وارنہ زیادتی کے سال رہے ہیں‘ تو 2020عالمی وباء کے لئے ملک میں ہندومسلم عینک کے ذریعہ دیکھا جانے والے سال تھا۔