محبت کی دوکان سے پریشانی !

   

چراغ علم جلاؤ بہت اندھیرا ہے
سیاہی دل کی مٹاؤ بہت اندھیرا ہے
کرناٹک میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی کامیابی کے بعد پارٹی لیڈر راہول گاندھی نے ریمارک کیا تھا کہ نفرت کے بازار میں محبت کی دوکان کھولی گئی ہے ۔ انہوں نے شائد در اصل ملک میں پائے جانے والے نفرت کے ماحول کو ختم کرنے کی سمت پیشرفت کا حوالہ دینا چاہا تھا ۔ راہول گاندھی کا یہ ردعمل میں کہا گیا جملہ بہت زیادہ عوامی توجہ حاصل کرنے والا بن گیا تھا ۔ کئی گوشوں سے اس رد عمل کی ستائش کی گئی تھی ۔ یہ دعوی کیا گیا تھا کہ انہوں نے انتخابی کامیابی پر اپنے منہ میاں مٹھو بننے یا مدح سرانی سننے کی بجائے ملک کے ماحول کو بہتر بنانے کی سمت توجہ کی ہے ۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کو اس جملے نے پریشان کرنا شروع کردیا ہے ۔ ویسے تو بی جے پی راہول گاندھی کے ہر بیان اور ہر جملے کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرتی ۔ بی جے پی کی جانب سے راہول گاندھی کے امیج کو نقصان پہونچانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے ۔ کچھ گوشوں کا تو دعوی ہے کہ بی جے پی نے راہول گاندھی کی امیج متاثر کرنے کیلئے کروڑ ہا روپئے خرچ کئے ہیں اور سوشیل میڈیا پر ٹرولس کی ایک فوج بنائی ہوئی ہے ۔ تاہم محبت کی دوکان کے جملے نے بی جے پی کو ایسے وقت میں پریشان کرنا شروع کردیا ہے جب ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتحابات ہونے والے ہیں اور پھر اس کے چند ماہ بعد ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ ویسے تو راہول گاندھی نے محبت کے پیام کو عام کرنے کی اپنی بھارت جوڑو یاترا سے ہی شروعات کی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ملک میں نفر ت کو ختم کرتے ہوئے محبت کو عام کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم کرناٹک نتائج کے بعد ان کے ایک جملے والے رد عمل سے بی جے پی الجھن اور پریشانی کا شکار ہوتی جا رہی ہے ۔ بی جے پی کے سرگرم اور بڑے قائدین انہیں نشانہ بنانے سے گریز نہیں کر رہے ہیں اور ان سے ایسے کئی سوال پوچھ رہے ہیں جن کا خود انہیں بھی جواب دینا چاہئے ۔سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی غرض سے ایسے مسائل اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو اس وقت کے ہیں جب راہول گاندھی سیاست میں تھے ہی نہیں۔ یہ مسائل وقت کی تہہ میں کہیںدفن بھی ہوچکے ہیں۔
راہول گاندھی کے ریمارک پر پہلے تو کچھ دوسرے درجہ کے قائدین نے رد عمل ظاہر کیا تھا ۔ تاہم اب بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا نے بھی رد عمل ظاہر کیا تھا ۔ چند دن قبل نڈا نے کہا تھا کہ راہول گاندھی نے محبت کی دوکان نہیں کھولی ہے بلکہ نفرت کا شوروم کھول لیا ہے ۔ یہ در اصل جے پی نڈا کی سیاسی بوکھلاہٹ تھی جس کی وجہ سے وہ اس طرح کا بیان دینے پر اتر آئے تھے ۔ اب مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی بھی راہول گاندھی پر تنقید کرنے آگے آئی ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ یہ کیسی محبت ہے کہ راہول گاندھی بیرون ملک جا کر ملک کے خلاف ریمارک کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ راہول گاندھی نے ملک کے خلاف کوئی ریمارک نہیں کیا ہے ۔ انہوں نے در اصل ملک میں پائے جانے والے حالات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اسمرتی ایرانی یہ جواب دینے تیار نہیں ہیں کہ کیوں وزیر اعظم نریندر مودی نے بیرونی ملک کی سرزمین پر کھڑے ہوکر یہ کہا تھا کہ جانے کیا پاپ کیا تھا کہ ہندوستان جیسے ملک میں پیدا ہوگئے ؟ ۔ یہ ریمارک ملک کے خلاف کہا جاسکتا ہے ۔ لیکن اس پر جواب دینے کیلئے کوئی بھی تیار نہیں ہیں۔ آج ملک میں خاتون پہلوانوں کی عزت سے کھلواڑ کیا گیا اور وہ چند ماہ سے احتجاج کر رہی ہیں‘ اسمرتی ایرانی ایک خاتون ہونے کے ناطے اس پر رد عمل ظاہر نہیںکر رہی ہیں بلکہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ جن کے خلاف الزامات عائد کئے گئے ہیں وہ کوئی اور نہیں بلکہ بی جے پی رکن پارلیمنٹ ہیں۔
آج ملک کے کئی شہروں میں نفرت کا ماحول گرم کیا جا رہا ہے۔ تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے نوجوانوں کے ذہنوں کو پراگندہ کیا جا رہا ہے ۔ انہیں روزگار اور ملازمت دینے کی بجائے انٹرنیٹ پر ٹرولس کا کام سونپا جا رہا ہے ۔ نوجوانوں کے مستقبل سے کھلواڑ ہو رہا ہے ۔ ایسے میں اگر راہول گاندھی سماج کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے سے قریب لانے کی کوشش کر رہے ہیں اور محبت کو عام کرنا چاہتے ہیں تو بی جے پی کسی بھی جماعت کو اس طرح چراغ پا ہونے کی ضرورت نہیں تھی ۔ تاہم محبت کی دوکان سے جو ملک میں حالات بدلنے کی امید پیدا ہوئی ہے اس سے در اصل بی جے پی اور اس کے قائدین پریشان نظر آتے ہیں۔