مہاراشٹرا میں سیاسی اتھل پتھل

   

بازیچئہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے
مہاراشٹرا میں سیاسی اتھل پتھل
مہاراشٹرا میں آئندہ چند مہینوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ریاست میں بی جے پی ۔ شیوسینا کی مخلوط حکومت ہے جس نے گذشتہ انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی ۔ سال رواں منعقدہ لوک سبھا انتخابات میںبھی اس اتحاد نے تمام تر اختلافات اور تنقیدوں کوبالائے طاق رکھتے ہوئے اتحاد کیا تھا اور مشترکہ مقابلہ کیا تھا جس کے ثمرات بھی اس اتحاد کو حاصل ہوئے ۔ دونوں جماعتوں نے لوک سبھا انتخابات میںشاندار کامیابی حاصل کی تھی ۔ اب اسمبلی انتخابات کیلئے بھی ان دونوں جماعتوں نے تیاریوںک آغاز کردیا ہے ۔ تاہم ان تیاریوں میں خاص بات یہ ہے کہ یہ تیاریاںمشترکہ نہیںہو رہی ہیں بلکہ دونوں اتحادی جماعتیں اسمبلی انتخابات میں اپنی اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش میںجٹ گئی ہیں۔ بی جے پی ریاست میں چیف منسٹر کا عہدہ رکھتی ہے اور اس کا دعوی ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخابات کے بعد بھی اگر اس اتحاد کو اقتدار حاصل ہوتا ہے تو دیویندر فرنویس ہی ریاست کے چیف منسٹر ہونگے ۔ تاہم شیوسینا نے اپنے طور پر چیف منسٹر کے عہدہ کیلئے تیاریاں شروع کردی ہیں۔ شیوسینا سربراہ ادھو ٹھاکرے کے فرزند آدتیہ ٹھاکرے کو عملا سرگرم کردیا گیا ہے ۔ وہ ریاست بھر کا دورہ کرتے ہوئے پارٹی کی تائید میںعوام کو مجتمع کرنے کی کوششوں میںمصروف ہوگئے ہیں۔ جب آدتیہ ٹھاکرے کی یاترا کو عوام کا خاطر خواہ رد عمل ملنا شروع ہوا تو چیف منسٹر فرنویس نے بھی مہا جن آدیش یاترا شروع کردی ہے ۔ ایک طرح سے دونوں جماعتیں اپنے اپنے طور پر ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کی کوششوں میںمصروف ہوگئے ہیں۔ شیوسینا ایسا لگتا ہے کہ پہلی مرتبہ ریاست میںچیف منسٹر کا عہدہ حاصل کرنے کیلئے سنجیدہہوگئی ہے اور وہ اس کیلئے بی جے پی پر انحصار کی بجائے اپنی تیاریوں پر زیادہ توجہ دے رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ عوامی تائید حاصل کرتے ہوئے زیادہ اسمبلی نشستوں پر کامیابی کیلئے اس نے حکمت عملی تیار کرلی ہے اور آدتیہ ٹھاکرے کو اسی مقصد کیلئے سرگرم کردیا گیا ہے۔ آدتیہ ٹھاکرے نوجوان ہیں اور پارٹی کو امید ہے کہ وہ نوجوانوںکو پارٹی سے قریب کرنے میںکامیاب ہوسکتے ہیں۔
ایک دوسرے سے در پردہ مسابقت میں بی جے پی اور شیوسینا کی جانب سے دوسری جماعتوں کے قائدین کو بھی اپنی صفوں میں شامل کرنے کی کوششیںتیز ہوگئی ہیں۔جہاںکچھ جماعتوں کے قائدین جن میں این سی پی بھی شامل ہے شیوسینا میںشامل ہو رہے ہیں تو بی جے پی نے سابق ریاستی چیف منسٹر نارائن رانے کو اپنی صفوں میںراغب کرلیا ہے ۔ رانے بی جے پی میںشامل ہوگئے ہیں۔ رانے کی شمولیت تاہم شیوسینا کو ہضم نہیں ہو رہی ہے ۔ نارائن رانے سب سے پہلے شیوسینا کے لیڈر تھے ۔ بعد میں وہ کانگریس میںشامل ہوئے اور وہ کونکن کے ساحلی علاقہ میں اچھا اثر رکھتے ہیں۔ ان کی شیوسینا سے دوری اور سینا پر تنقیدوں کی وجہ سے پارٹی کو اب ان کی بی جے پی میںشمولیت پر اعتراض ہے تاہم بی جے پی شیوسینا کے اس اعتراض کو خاطر میں لائے بغیر کونکن میں ان کی اور ان کے فرزندان کی مقبولیت اور حلقہ اثر کا سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے ۔ اس کے علاوہ کئی دوسرے مقامی سطح پر اثر رکھنے والے قائدین بھی ہیں جن کو دونوںجماعتیںراغب کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ایک طرح سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جو سیاسی اتھل پتھل ہو رہی ہے وہ در اصل اقتدار کی رسہ کشی ہی ہے ۔ بی جے پی جہاں اقتدار چھوڑنا نہیںچاہتی ہے وہیں شیوسینا کسی بھی قیمت پر اقتدار پر اپنا تسلط چاہتی ہے ۔ اس کیلئے ہر دو جماعتیں اپنے طور پر کوششوں میں مصروف ہیں۔
دوسری جانب جہاں تک اپوزیشن کانگریس ۔ این سی پی کا سوال ہے وہ انتشار کا شکار ہی نظر آتی ہیں۔ کانگریس میں مرکزی قیادت کی گرفت کمزور ہونے کے نتیجہ میں ریاستی امور بھی بد حالی کا شکار ہیں۔ این سی پی میں قیادت کے خلاف کارروائیوںاور مقدمات نے پارٹی کے کیڈر میں مایوسی کی لہر پیدا کردی ہے ۔ جو قائدین پارٹی میں اہم مقام حاصل کرنے میںناکام رہے ہیں یا پھر جنہیںاقتدار سے دوری ہضم نہیں ہو رہی ہے وہ بی جے پی یا شیوسینا کا دامن تھامنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال ایسی ہے جس شیوسینا اور بی جے پی دونوں ہی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کانگریس ۔ این سی پی نے اگر اب بھی اپنی صفوں کو متحد اور مستحکم کرنے اقدامات نہیںکئے تھے تو صورتحال ان کے قابو سے باہر ہوسکتی ہے ۔