ڈاکٹر عزیز سہیل کی نئی تصنیف ’’مضامین ڈاکٹر شیلا راج‘‘

   

ڈاکٹر ضامن علی حسرت
ڈاکٹر عزیز سہیل ایک فعال و متحرک ادیب ، مبصر معلم اور اسکالر ہیں۔انھوں نے اپنی محنت لگن اور جستجو سے دنیائے ادب میں اپنی ایک منفرد پہچان بنائی ہے۔ اپنی مصروفیات میں سے بھی یہ اپنی مادری زبان اُردو کے لئے وقت نکال لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ مختلف یونیورسٹیوں میںمنعقد ہونے والے سمیناروں ، اُردو کے اہم اجلاسوں میں بھی شرکت کرتے ہیں، مختلف شعرا اور ادیبوں کی تصانیف پر سیر حاصل و پُر مغز تبصرے کرتے ہیں۔ اِن کے تبصرے مختلف اُردو اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر سہیل کی اب تک (8) تصانیف ،(1) ادبی نگینے ، (2) ڈاکٹر شیلاراج کی تاریخی و ادبی خدمات (3) سماجی علوم کی اہمیت، مسائل اور امکانات (4) میزانِ نو (5) مولوی عبدالغفار حیات و خدمات (6) دیار ادب (7) رونق ادب (8) فکر نو منظرِ عام پر آچکی ہیں جنھیں ادبی دنیا میں خوب مقبولیت حاصل ہوئی ، آنے والے وقتوں میں یہ کئی اور اہم و کارآمد کتابوں کے مصنف ہوسکتے ہیں۔اِن میں ادب کو تخلیق کرنے کا ایک جوش ہے ایک جنون ہے جو اُنھیں ادب کی جانب راغب کرتا ہے اور وہ قرطاس و قلم کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں، پھر نئی نئی تخلیقات کا جنم ہوتا ہے۔
ادب کا ذوق ڈاکٹر عزیزسہیل کو وارثت میں ملا ہے، آپ کے والد مولوی عبدالغفار ایک نظام آباد کی معروف و مذہبی شخصیتوں میں ہوتا ہے۔ اُنھوں نے برسوں نظام آباد میں دینی و ملی خدمات انجام دی ہیں۔ڈاکٹر سہیل میرے ہم وطن یعنی شہر نظام آباد کے رہنے والے ہیں ۔وہ مجھے اپنے بڑے بھائی کا درجہ دے رکھا ہے ۔میں اِن کے ادبی سفر سے کافی خوش اور مطمئن ہوں یہ بڑے ہی ملنسار، سادگی پسند اور مخلصانہ مزاج کے حامل ہیں۔ اِسی لئے اِن کے دوست واحباب کا دائرہ کافی وسیع ہے۔ چہرے پہ ہمیشہ مسکراہٹ رہتی ہے۔ ہر کسی سے نہایت ہی خندہ پیشانی و انکساری سے ملتے ہیں۔ 2013؁ء میںانھوں نے عثمانیہ یونیورسٹی سے ڈاکٹر شیلا راج کے فن وشخصیت پر اپنا مقالہ پیش کرکے پی۔ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی زیر نظر تصنیف ’’مضامین ڈاکٹر شیلا راج ‘‘ اِ ن کی ڈاکٹر شیلا راج پر دوسری تصنیف ہے جسے انھوں نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ مرتب کیا ہے۔اس سے قبل انھوں نے ڈاکٹر شیلاراج پر پہلی تصنیف بعنوان ’’ڈاکٹر شیلا راج کی تاریخی و ادبی خدمات ‘‘ تحریر کی تھی۔
ڈاکٹر شیلا راج کی جملہ آٹھ کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں جو نہ صرف اہمیت کی حامل ہیں بلکہ دکنی ادب کے شیدائیوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں ۔ اِن تصانیف کے علاوہ اُنھوں نے (30)سے بھی زائد مقالے تحریر کئے ہیں جو اُردو اخبارات کے ساتھ مشہور انگریزی اخبارات میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے بہت سارے بہترین مضامین بھی لکھے ہیں جو برسوں اُردو اخبارات میں شائع ہو تے رہے ہیں ۔ان کا پہلا مضمون روزنامہ سیاست ،حیدرآباد میں 17 جولائی 1966؁ء کو شائع ہوا جو کہ اُردو کے نامور شاعر مرزا غالبؔ پر لکھا گیا تھا۔ زیر نظر تصنیف ’’مضامین ڈاکٹر شیلا راج ‘‘کو ڈاکٹرمحمد عبدالعزیز سہیل نے کافی تحقیق و محنت سے مرتب کیا ہے۔ (200) صفحات پر مشتمل اِس کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ حصّہ اول شخصیات پر مشتمل ہے جس میں (6) مضامین، مرزا غالب، جگر مرادآبادی، نواب سروقار الامرا بہادر ایک خوش سلیقہ شخصیت ، نواب عماد الملک، راجہ شیو راج دھرماونت بہادر حیدرآباد کی ایک مایہ ناز شخصیت اور ڈاکٹر کورین کی ناقابل فراموش خدمات، سارے ہی مضامین تحقیق کی روشنی میں لکھے گئے ہیں، جن میں مرزا غالبؔ اور جگرؔ مرادآبادی نہایت ہی مرصّع و معلوماتی مضامین ہے ۔ حصّہ دوم میں ’’دکن کی تہذیب و ثقافت پر مشتمل ہے اس میں ڈاکٹر عزیز سہیل نے ڈاکٹر شیلاراج کے کوئی (9) مضامین شامل کئے ہیں جن کے نام یہ ہیں (1) حیدرآباد کی تہذیب (2) سابق حیدرآباد ہندومسلم روایات کا اَمین (حصّہ اول)(3) سابق حیدرآباد ہندومسلم روایات کا امین ( حصہ دوم) (4) سابق حیدرآباد ہندو مسلم روایات کا امین ( حصہ سوم) (5) مذہبی رواداری اور دور آصف جاہ سادس (6) حیدرآباد کا پائیگاہ آسماں جاہی ( حصہ اول) (7) دہلی میں ملکہ معظّمہ کا دربار (8) زیور ازل تا ابد سنگھار اور حیدرآباد میں گذشتہ تین سال میں بارش کے لئے دعائیں شامل ہیں۔ حصہ دوم کو بھی ڈاکٹر عزیزسہیل نے کافی سلیقے اور ادبی بصیرت سے سنوارا ہے اسی لئے وہ مبارکبادی کے مستحق ہیں۔اِس حصہ کاآخری مضمون ’’حیدرآباد میں گذشتہ تین سال میں بارش کے لئے دُعائیں‘‘ کافی متاثر کن اور سبق آموز ہے۔اس مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ بارش کے نہ ہونے پر ہر دور میں دُعائیں کی گئیں اور اللہ کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ بارش کو برسائے اور اپنے عاجز و ناتواں بندوں پر رحم کرے۔ تصنیف کے تیسرے حصہ کو عہد دکن کی تاریخی عمارت سے موسوم کیا گیا ہے اس حصہ میں تین مضامین ( 1) پرانی حویلی تین فرمان رواں کا مسکن (2) کنگ کوٹھی ایک تاریخ ایک تہذیب ایک دور اور قصر فلک نما امرائے پائیگاہ کی خوش سلیقگی اور حسن و ذوق کا شاہکار شامل ہیں۔ یہ تینوں مضامین بڑی اہمیت کے حامل ہیں ان کے مطالعہ سے ہمیں بڑی اہم و دلچسپ باتوں کا علم ہوتا ہے۔ اس حصّہ کے پہلے مضمون پر پرانی حویلی کی عظمت و اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فاضل مصنف نے یہ دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ وہ پرانی حویلی ایک ایسی تاریخی عمارت ہے جس کو آصف جاہی اور قطب شاہی کے فرمان رواں نے اپنا مسکن بنا کر اِسے تاریخ دکن میں ہمیشہ کے لئے زندہ جاوید بنا ڈالا، وقت کا مورخ جب جب بھی تاریخ رقم کرے گا تو اُس میں پرانی حویلی کی عظمت و شان و شوکت اور اس کی تاریخی اہمیت کا تذکرہ ضرور کرے گا۔حصّہ سوم کے دیگر دو مضامین میں کنگ کوٹھی کی تاریخی اہمیت کو اس کی تہذیب کو نہایت ہی چابکدستی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ آج کنگ کوٹھی کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہے، دنیا بھر میں کنگ کوٹھی کے نام کی بازگشت آج بھی باقی ہے۔ اور آگے بھی رہے گا۔اِس کے علاوہ اسی حصّہ کے آخری مضمون میں قصر فلک نما کی تاریخی اہمیت پر بھر پور روشنی ڈالی گئی ہے۔ کنگ کوٹھی اور پرانی حویلی کی طرح قصر فلک نما پیالس کو بھی بین الاقوامی شہرت حاصل ہے۔ یہ محل اپنی انوکھی طرز تعمیر بناوٹ اور کاریگری کے فن کیلئے صدیوں یاد رکھا جائے گا۔ قصرِ فلک نما کیاہمیت کو اُجاگر کرنے کیلئے ڈاکٹر شیلا راج نے نامور مورخ و دانشور رنتاراہ شیکھر کے مضمون کا حوالہ دیا ہے۔ رنتا راؤ شیکھر نے اپنے مضمون میں لکھاتھا کہ قصرِ فلک نما کا ڈیزائین بچھو کی وضع کا ہے جس کے ڈنک اس خوبصورت عمارت کے دو بازو ہیں ۔ تصنیف ’’مضامین شیلا راج‘‘ کے آخری اور چوتھے حصّہ میں دو متفرق مضامین (1) بہارد یا ر جنگ نمبر ، ہفتہ روزہ تاریخ پر بھنی (2) دودھ میں سیاست ‘‘ شامل ہیں۔ دونوں ہی مضامین بڑے اہم اور معلوماتی ہیں ان کے مطالعہ ے بہادر یا جنگ کی عظمت اور اِن کی کاوشوں کا پتہ چلتا ہے جو اُنھوں نے حیدرآباد دکن کے لئے انجام دیا تھا۔ تصنیف کا آخری مضمون’’دودھ میں سیاست‘‘ بھی بڑامزیدار اور لاجواب ہے۔ ڈاکٹر عزیزسہیل نے ڈاکٹر شیلاراج کے نہایت ہی مرصّع اور اہمیت کے حامل مضامین کو اکٹھا کر اُنھیں ایک کتابی شکل دی ہے جسے ہم ایک بہترین ادبی کاوش بھی کہہ سکتے ہیں جسکے ڈاکٹر عزیزسہیل مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اور ڈاکٹر شیلا راج کی تحریروں سے متعلق کیا کہا جائے اتنی خوبصورت، دلکش اور جاندار ہیں کہ جسے بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحبہ ایک غضب کی مصنفہ ہیں جنھیں ادبی دنیا ہمیشہ یاد رکھیں گی۔بقول شاعر ؎
اپنے پرکھوں کی وصیت سے ہی مجبور تھا میں
ورنہ دوچار قدم گھر سے ترے دور تھا میں
اس کتاب کا پیش لفظ حیدرآباد دکن کے نامور مصنفہ ڈاکٹر حبیب ضیاء نے نہایت ہی مرصّع انداز سے لکھا ہے۔ کتاب کا مقدمہ جو کہ قریب (36) صفحات پر مشتمل ہے جسے ڈاکٹر عزیز سہیل نے کافی عرق ریزی اور محنت سے لکھا ہے۔ اس کے علاوہ تصنیف میں سید رفیع الدین قادری صاحب کا مضمون ’’ڈاکٹر شیلا راج: تاریخ دکن کی تاریخ دان ‘‘ کافی لاجواب اور شاندار ہے۔ ڈاکٹر راج نارئن راج کو کہ ڈاکٹر شیلا راج صاحبہ کے شوہر اور اُردو کے ایک معتبر ادیب و دانشور ہیں ،اپنے تاثرات کو زیر نظر تصنیف میں شامل کرکے کتاب کی توقیر میں اِضافہ کیا ہے۔ کتاب کا انتساب بھی خوبصورت ہے۔ اس کتاب کو ایجوکیشن پبلشنگ ہاؤس دہلی نے شائع کیاہے۔ کتاب کا کاغذ عمدہ ہے اور اس کی بائنڈنگ لا جواب ہے۔ خوبصورت ملٹی کلر سے مزین اس کتاب کی قیمت 250روپئے رکھی گئی ہے جو کہ نہایت ہی واجبی ہے۔ اس کتاب کو مصنف کے اس پتہ سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالعزیز سہیل، 4-2-75، مجید منزل،لطیف بازار، نظام آباد(تلنگانہ اسٹیٹ) موبائل نمبر 92996553396۔