ہم لو گ دیگر علاقے کے لوگوں کے متعلق حساس او رنسل پرست نہیں ہیں۔آسام سیول سوسائٹی

,

   

بین الاقومی میڈیااور تنظیمیں جس انداز میں انہیں پیش کرنے کا راستہ اپنا یاہے‘ اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتاکیونکہ وہ کبھی تشدد کو بڑھاودینے اور نقصان پہنچانے کی وکالت نہیں کرتے اور نہ ہی غیر شہری قراردئے گئے کسی فرد کے ساتھ غیرانسانی سلوک رواں رکھنے کی بات کرتے ہیں۔

گوہاٹی۔تعصب اور مذہبی امتیازی کے الزامات کا سامنا کرنے کے دوران آسام کے غیرملکیوں کی شناخت کے لئے کی جانے والی بوجھل مشق کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ ”دوسرے علاقے کے لوگوں کے تئیں عدم رودار نہیں ہیں“۔

بین الاقومی میڈیااور تنظیمیں جس انداز میں انہیں پیش کرنے کا راستہ اپنا یاہے‘ اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا

کیونکہ وہ کبھی تشدد کو بڑھاودینے اور نقصان پہنچانے کی وکالت نہیں کرتے اور نہ ہی غیر شہری قراردئے گئے کسی فرد کے ساتھ غیرانسانی سلوک رواں رکھنے کی بات کرتے ہیں۔

بنگالی بولنے والے تارکین وطن کے خلاف کاروائی‘ نسلی بدسلوکی اور نظر بندی یہ وہ وجوہات ہیں جس کی وجہہ سے بیرونی لوگ مذکورہ ریاست میں شہریوں کی تازہ ترین راجسٹریشن کے اس عمل پر نظر رکھے ہوئے ہیں جہاں پر زیادہ مسلم تارکین وطن کو نشانہ بنایاجارہا ہے۔

آسام کو پڑوسی ملک بنگلہ دیشی سے تاریخی غیرقانونی تارکین وطن کی نقل مقامی کا سامنا کرنا پڑا ہے او رمقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ غیرملکیوں نے انہیں دلدل میں ڈالا ہے۔

ہری کرشنا دیکا آسام پولیس کے سابق چیف جو اکزم ناگریک سماج جو کہ ایم مقامی تنظیم ہے اس کی قیادت کررہے ہیں نے کہاکہ ”قومی رجسٹرار برائے شہریت حقیقت میں یہ مذہب سے غیر جانبدار عمل ہے۔

دیکا نے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ جیسے الجزیرہ اور لندن ٹائم میں شائع ہونے والی خبروں کے حوالے سے بات کہی۔

اگست29کے روز الجزیرہ میں خبر شائع ہوئی تھی کہ شہریت معاملہ میں اقوام متحدہ کے ایک خصوصی مبصر نے بیان میں کہا کہ”غیر علاقائی لوگوں سے تعصب کے معاملے پر یہ مشتمل ہے“۔

سال1983کے دہے میں بنگالی بولنے والے تین ہزار سے زائد مسلمانوں کے نالیا جو سنٹرل آسام کے ناگاؤں ضلع میں ہوئے قتل عام سے اس عمل کو جوڑنے کاکام کیاتھا۔

دیکا نے اس طرح کے تمام دعوؤں کو مسترد کردیا۔دیگر ممالک میں رہنے والے آسامی لوگوں نے بھی اس عمل پر اعتراض جتایا ہے۔