یوپی میں یوگی کی امیدواری کیا بی جے پی کے فائدہ مند ہوگی؟

,

   

گجرات اورمرکز دونوں میں نریندر مودی کے سکریٹری رہے ائی اے ایس افیسر اے کے شرما نے جب حال ہی میں اپنی ملازمت چھوڑ کر اترپردیش محض ایک رکن قانون ساز کونسل او رچیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ کے اہم ساتھی بننے کے لئے دوڑے چلے ائے تو افواہوں کو مانو پر لگ گئے ہیں۔

اب جبکہ یوپی انتخابات میں ایک سال سے بھی کم وقت باقی ہے‘ تو کیاریاست میں سیاست پر قابوکے لئے مودی کو یہ کوئی کھیل کا منصوبہ ہے؟چاہئے یہ ہے یانہیں ہے‘ ذرائع کا کہنا ہے کہ یوگی شرما کے داخلے کے متعلق بہت زیادہ خوش نہیں تھے۔

اورپچھلے ہفتہ یہ کہانی بھی گشت کررہی تھی کہ انہیں جب دہلی طلب کیاگیاتھا تو وزیراعظم سے یوگی نے اپنے تحفظات کے متعلق بات کی ہے۔

یوکی کی وزرات میں شرما کی شمولیت کے امکان نے اس کاروائی پر روک لگانے کاکام کیاہے۔

مگر شرما جس کا تعلق مرزا پور علاقے سے ہے کا تقرر یوپی کے بی جے پی ریاستی نائب صدر کی حیثیت سے ہوا ہے۔ ایک ایسا مقام جس میں بہتری کے لئے وہ اور کام کریں گے۔

بعض ٹی وی رپورٹس میں یہ بات دیر گئی دیکھائی گئی ہے کہ یوگی نے بی جے پی کو یقین دلایاکہ وہ چیف منسٹر امیدوار ی دووبارہ حاصل کریں گے۔ چار سال قبل جب یوگی ادتیہ ناتھ چیف منسٹر بنے تھے وہ مودی کی پہلی پسند نہیں تھے۔

اس وقت کے مملکتی وزیر برائے ٹیلی کام منوج سنہا مودی کی ترجیحاتی پسند تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ مودی سنہا کہ قابلیت اور خاموش مزاجی کے متعارف تھے اور وہ ایک ایسا شخص پسند کرتے تھے۔

مگر سنہا کا تقرر طاق میں چلے گیاکیونکہ آرایس ایس سربراہ موہن بھگوات کی مضبوط ترجیح یوگی ادتیہ ناتھ تھے۔

اس کی وجہہ یہ تھی کہ ادتیہ ناتھ گورکھپور میں گورکھ ناتھ مٹھ کے پیٹھ تھے جس کو روایتی طور پر غیر برہمن مندر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ ادتیہ باتھ(1972میں جس کی پیدائش ہوئی)وہ نوجوان تھے اور 1998میں ایک رکن پارلیمنٹ بننے کے بعد وہ بہت طاقتور لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں۔

پروانچل میں ان کے کام نے علاقے میں طاقت کو دوگنا کردیاتھا۔

مذہبی گورکھ ناتھ ٹرسٹ کے وہ مکمل سربرا ہے ہیں اور ہمیشہ بھگوا رنگ کا لباس زیب تن کئے ہوئے ہوتے ہیں۔ بغیر کسی بات کو دہرائے اس نے ہندوجذبات کا کھیل کھیلا اور بی جے پی کو اس کافائدہ بھی پہنچا ہے۔

حالانکہ سنہا انتظامی صلاحیتوں میں کافی مہر ہیں مگر اس شعبہ میں ان کا اسکور کافی کم ہے۔ اب سنہا کو جموں اور کشمیر کا گورنر بنانے کی تیاری کی جارہی ہے۔

تاہم بی جے پی کا ایک حصہ ادتیہ ناتھ سے ناراض اس وجہہ سے بھی تھا کہ وہ اپنے ایک خود مختار لائن پر عمل پیرارہے ہیں۔ مثال کے طور پر 2010میں جب خواتین کے تحفظات کے لئے رائے دہی کرائی گئی تھی تب وہ پارٹی کی لائن سے ہٹ کر کام کیاتھا۔

چیف منسٹر کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد بھی یوگی جے ایک سخت لائن اختیار کی تھی۔ ایک سیاسی مبصر نے کہاکہ ”دہلی میں یہ احساس ہونے لگاہے کہ وہ ایک خود مختار لائن اختیار کئے ہوئے ہیں اور ہمیشہ انہیں ایک مذکورہ سرکاری لائن کے برعکس کام کرتے ہوئے دیکھا گیاہے“۔

ان کا کہنا ہے کہ یوگی بھی یہی سمجھتے ہیں اور اسی وجہہ سے وہ قومی پریس میں اشتہارات کے لئے کافی پیسہ خرچ کررہے ہیں۔ اس سے امید ہے کہ ان کی عوام میں شبہہ بہتر بن جائے گی۔مگر ان کے سخت رویہ سے انہیں سنگھ کے ماننے والوں کی تعداد مل سکتی ہے۔

جانکاری کا کہنا ہے کہ یوگی کی یہ لائن ہوسکتا ہے ہندوؤں کے بعض حصوں سے حمایت ملنے کاسبب بنے مگر سکیولر طبقے اور اقلیتوں کی جانب سے اس کو مستر کردیاجائے گا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ چند دن قبل پریس انفارمیشن بیورو نے ایک سرکاری تردید دینے سے انکار کردیاتھا کہ یہاں پر اترپردیش کو تین تکڑوں جیسے ویسٹ اترپردیش‘ ایسٹ اترپردیش اور بندیل کھنڈ میں بانٹنے کا منصوبہ ہے۔

مذکورہ ارتدادحقیقی رپورٹس سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے‘ اس طرح کی خبریں شائد یوگی ادتیہ ناتھ کی مرضی کی مطابق نہیں ہوں گے کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے ان کے اثر رسوخ میں کمی اجائے گی‘ جو اس کے سائز میں کمی کے سبب ممکن ہے۔

چیف منسٹر کے عہدے پرفائز ہونے سے قبل یوگی ادتیہ ناتھ پوراونچل میں بہت زیادہ مصروف تھے۔ مگر اب دوسری معیاد میں ملازمتوں کیلئے وعدے کے ساتھ یوگی آگے ائیں گے۔

اپوزیشن جماعتیں جیسے کانگریس اور بھوجن سماج پارٹی(بی ایس پی) کا طاقت کم ہے صرف سماج وادی پارٹی(ایس پی) اکھیلیش یادو کی زیر قیادت یوپی میں یوگی کی زیر قیادت بی جے پی کے مدمقابل کھڑی ہوئی ہے۔

انتخابات کے لئے کس طر ح کے حالات ہوں گے یہ قیاس کا معاملہ ہے۔ مگر دلچسپ جنگ یوگی اور ان کی عامریت کے درمیان میں جنگ ہوگی۔