بہار سے بنگلہ دیشیوں کو بھگانے کے لئے بی جے پی این آ رسی کی مانگ کرے گی

,

   

پٹنہ۔ قومی راجسٹرار برائے شہریت کے معاملے میں جے ڈی(یو) کے سرکاری موقف کے برعکس بی جے پی نے اب چاہتی ہے کہ ملک کے دیگر حصوں بشمول بہار کے سیمانچل علاقے میں بھی اس کا نفاذ عمل میں لایاجانا چاہئے تاکہ بنگلہ دیش سے غیرقانونی داخل ہونے والوں کو نکال باہر کیاجاسکے۔

بی جے پی لیڈران کے مطابق بنگلہ دیش پناہ گزین بڑی تعداد میں بہار کے کئی اضلاع میں موجود ہیں جس میں سیمانچل اور ریاست کا کوچی علاقہ بھی شامل ہے۔

بی جے پی کے سینئر لیڈر او ربہار کے منسٹر ونود سنگھ نے کہاکہ ”مذکورہ حکومت کوچاہئے کہ وہ بہار کے سیمانچل علاقے میں بنگلہ دیشی غیرقانونی پناہ گزینوں کی جانچ کے لئے این آر سی کے نفاد کوتسلیم کرے“۔

ایک اندازے کے مطابق سیمانچل علاقہ جس میں کٹھیار‘ پورنیا‘ اور کشن گنج آتا ہے چالیس فیصد سے زیادہ آبادی اقلیتوں پر مشتمل ہے۔

کشن گنج میں اکیلے مذکورہ مسلم آبادی پچاس فیصد ہے۔ایک دن قبل بی جے پی رکن پارلیمنٹ راکیش سنہانے ٹوئٹ میں یہ کہاتھا کہ ”سیمانچل اضلاعوں بالخصوص کٹیار‘ کشن گنج او رپورنیا میں آبادی بڑھ رہی ہے‘ جو بڑی تشویش کا باعث ہے۔

مفاد پرست سیاست داں ووٹوں کی وجہہ سے اس حقیقت کونظر انداز کررہے ہیں۔ بڑی تعداد میں بنگلہ دیشوں کا زمین او رتجارت پر قبضہ ہے۔

اس علاقے کے لئے این آر سی لازمی ہے“۔ ایک او رٹوئٹ میں مسٹر سنہا نے سیمانچل میں این آر سی کی مخالفت کرنے والی پارٹیوں کو تنقید کانشانہ بنایااو رکہاکہ ”این آرسی کی مخالفت کرنے والوں کے پاس نہ تو حقائق ہے اور نہ کو ئی وجہہ ہے۔

ان کا یقین اس بیماری کو بڑھاوا دینے میں ہے۔ اراریا اضلاعوں کے کچھ گاؤں میں حالات کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ اے بی وی پی نے 1960کے دہے میں غیرقانونی دخل اندازی کے خلاف ایک مہم شروع کی تھی“۔

ڈپٹی چیف منسٹر سشیل کمار مودی نے بھی معاملہ کی مخالفت کرنے والی اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے چہارشنبہ کے روز کہاکہ ”کئی سیاسی جماعتیں ووٹ بینک کے نظریہ کی بنیاد پر این آر سی کو دیکھتے ہیں مگر بی جے پی دہشت گردی اور شدت پسندی میں غیرقانونی پناہ گزینوں کے داخلوں کوبنیاد سمجھتی ہے‘لہذا پارٹی کسی سیاسی دباؤ اور پارٹی فائدے کو بلائے طاق رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کررہی ہے جوملک کے مفاد میں ہے“۔

حالانکہ ڈپٹی چیف منسٹر سوشیل مودی نے بہار میں این آرسی کے نفاذ کے متعلق کھل کر بات نہیں کی ہے مگر بی جے پی ایک حصہ ان کے ٹوئٹ کو پارٹی کی مانگ کی حمایت کے طور پر دیکھ رہا ہے۔

ونود سنگھ کا شمار پارٹی کے بااثر وزراء میں ہوتا ہے جبکہ راکیش سنہاکا تعلق بھی آر ایس ایس سے ہے۔