بی جے پی کے دوہرے نقطہ نظر میں دراڑیں۔ راج دیب سردیسائی

,

   

تنہا ہندوتوا پر ووٹ نہیں جیتے جاسکتے۔ اتحادیوں کو خوش کرنے اور ووٹ حاصل کرنے کے لئے معیشت پر توجہہ لاگئی جارہی ہے

یہ ستم ظریفی کی بات نہیں ہے کہ طویل مدت سے زیر التواء ایودھیامعاملہ میں سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے چند بعد ہی شیو سینا بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) سے اپنا اتحاد ختم کردیاہے۔

مذکورہ سینا بی جے پی ہی حقیقی ہندوتوا اتحاد ہے‘ جو 1980کے دہے میں رام جنم بھومی تحریک کا ایک اہم نام مانا جاتا ہے۔

بابری مسجد کو شہید کئے بغیر یااس کے بعد کوئی بھی سیاسی جماعت دہلی یا ممبئی میں اقتدار کی دعویدار نہیں رہی تھی۔ تو کیا اس بڑے اتحاد میں دراڑ کو ہندوتوا سیاست کے مفاد پرستانہ الہ کے طور پر دیکھا جانا چاہئے یا پھر سیاست میں نظریاتی کی ”موقع پرستی“ کے طور پر اس کا اعادہ کیاجانا چاہئے؟

۔مذکورہ بی جے پی نے عام انتخابات میں بڑی جیت حاصل کی ہے‘ وزیراعظم نریندر مودی کی اپیل پر یقین کرنا اور طاقتور قوم پرستی کے ایک ”ترشول“بمشکل پوشید ہ استبدادی اور بہتر انداز میں نشانہ بنانے والے اس میں شامل ہیں۔

مہارشٹرا میں بی جے ہی شیو سینا اتحاد نے 48میں سے 41سیٹوں پر جیت حاصل کی 230کے قریب اسمبلی سیٹوں پر انہیں سبقت حاصل تھی۔

اگر وہ ایوان اسمبلی اپنی کامیابی کو نہیں دہراسکتے ہیں تو یہ دیکھاتا ہے کہ ریاستی الیکشن میں مقامی معاملات قومی ایجنڈہ کے لئے کارگرد ثابت ہوا ہے۔

مثال کے طور پر ایودھیامیں مسجدمندر کے تنازعہ کو برقرار رکھنا۔ہوسکتا ہے کہ بی جے پی کے اپنے رائے دہندوں کو پسند ائے‘ مگر یہ سماجی اور جغرافیائی دونوں حدووں کے لئے نقصاندہ رہا ہے اور اس میں وقتا فوقتا توسیع آتی رہی ہے۔

اس نے ابتداء میں بی جے پی کو”20فیصد سے زائد“ پارٹی بنایا‘ مگر طاقتور قومی پارٹی کا درجہ اس کو آخری دہے میں ہی حاصل ہوا ہے۔ سال 2009کے عام انتخابات میں بی جے پی کو ووٹ شیئر18فیصد رہا جبکہ 2019میں یہ دوگنا ہوکر 37فیصد تک پہنچ گیا‘ جو کانگریس کے زوال او رمودی کے عروج کی عکاسی کرتا ہے۔

مودی کے دوسری مرحلے کی حکومت کے اندرون چھ ماہ حکومت نے ارٹیکل370کو برخواست کردیا‘ ایودھیامیں رام مندر کی تعمیر کے لئے عدالت سے منظوری حاصل کرلی‘ طلاق ثلاثہ کو جرم قراردیتے ہوئے بڑے پیمانے پر یکساں سیول کوڈ کو نافذ کرنے کی جانب پیش قدمی کرلی۔

شہریت قانون میں ترمیم دو طبقات کے درمیان میں امتیاز کا ذریعہ ہے جو ان کے ایجنڈہ کا اہم حصہ ہے۔

مذکورہ ماننا ایسا لگ رہا ہے کہ رائے دہندے رام بھکتی میں انہیں ووٹ دیں گے ان لوگوں کے لئے روٹی کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔

اگر وہ کام نہیں بھی کرتا ہے تو سنگھ پریوار کی ملحقہ وشوا ہندو پریشد موجود ہے تاکہ ان کے مطالبات کے اگلے حصہ میں کشی اور ماتھرا کو شامل کرسک