لوک سبھا انتخابات کے پہلے مرحلے کے لیے 102 سیٹوں پر انتخابی مہم ختم ہو گئی ہے۔

,

   

مرکز کے زیر انتظام علاقوں اور 13 ریاستوں کی 89 نشستوں کے لیے دوسرے مرحلے کی پولنگ 26 اپریل کو ہوگی۔

نئی دہلی ۔ لوک سبھا کی 102سیٹوں پر جو 21راستوں اور مرکز کے زیر اقتدار علاقوں پر مشتمل ہیں کے لئے پہلے مرحلے کی انتخابی مہم کا اپریل19کے روز اختتام عمل میں آیا جس کے بعد بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے اور اپوزیشن کے انڈیا بلاک کے بڑے قائدین رائے دہندوں کو اپنی جانب راغب کرانے کی کڑی جدوجہد کے بعد چین کی سانس لے رہے ہیں ۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی ذمہ داری کی قیادت کرتے ہوئے پچھلے کچھ دنوں میں مختلف ریاستوں کے ہنگامی دورے کئے ‘ ریالیوں سے خطاب کیا‘ روڈ شوز کئے اور 2014کے علاوہ 2019 میں عوام کے بھروسہ کو یاد دلانے کے لئے ساتھ2024کی ضمانتوں کا اعلان کیا ۔

متعدد مرتبہ انہوں نے کہاکہ ’’یہاں پر مودی کی ضمانتیں ملک بھر میں ہے اور میں ضمانت دتیا ہوں کہ یہ تمام ضمانتیں پوری ہوں گی‘‘ ۔ وزیرداخلہ امیت شاہ‘ ڈیفنس منسٹر راجناتھ سنگھ اور ا ن کی کابینہ کے متعدد ساتھی ‘ کانگریس قائدین جیسے ملکارجن کھڑگی‘ راہول گاندھی اورد یگر پارٹیوں نے اپنے امیدواروں کے لئے مہم چلائی ۔ بی جے پی نے انڈیا بلاک پر بدعنوانی‘ خاندانی سیاست اور ائین کی توہین کے بشمول ہندوازم پر عوام کوالجھایا ۔

اپوزیشن قائدین الکٹرول بانڈس‘ ایجنسیوں کا بیجا استعمال‘ مہنگائی اور بے روزگاری جیسے موضوعات کے حوالے سے مرکزی حکومت کو اپنی تنقید کانشانہ بنایا ۔ بی جے پی نے اپنے منشور میں ترقی اور فلاح وبہبود کو ترجیح دی اور متنازعہ مسائل جیسے این آر سی وغیرہ سے گریز کیا ۔

مذکورہ منشور جس کا عنوان ’’مودی کی گیارنٹی‘‘ رکھا گیاہے میں بڑے پیمانے پر حکومت کی موجودہ فلاحی اسکیمات پر مشتمل ہے اور اس میں ون نیشن ون الیکشن اور یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کا اعادہ کیاگیا ہے جو 2019کے منشور میں بھی شامل تھا ۔ کانگریس نے اپنے ’’نیائے پاترا‘‘ کے عنوان پر مشتمل منشور جو 45صفحات پر مشتمل ہے نے 25ضمانتیں اور پانچ’’ انصاف کے ستون‘‘ پر توجہہ دی ہے ۔

اپرنٹس شپ کا حق‘ ایم ایس پی کے لئے ایک قانونی ضمانت‘ایس سی ‘ ایس ٹی او راو بی سی تحفظات کی حد 50فیصد سے اضافہ کے لئے ائین میں ترمیمی منظوری‘ قومی سطح پر ذات پر مشتمل مردم شماری اور اگنی پتھ اسکیم کو برخواست کرنے کے علاوہ دیگر وعدوں کو اپنے منشور میں کانگریس نے شامل کیاہے ۔

تاہم مودی نے یہ کہتے ہوئے کانگریس کے منشور کو نشانہ بنایا ہے کہ ’’ اس میں مسلم کا عکس دیکھائی دیتا ہے جس کے ہرصفحہ پر ملک کو توڑ نے کی کاکام کیاگیاہے‘‘ ۔

اٹھ مرکزی وزراء نتن گڈگری‘ کرن رججو‘ سربندہ سونوال‘ سنجیو بالیان‘ جیتند ر سنگھ‘ بھوپیند ریادو‘ ارجن رام میگھاول اور ایل مورگن ‘ دوسابق چیف منسٹران بپلٹ کمار دیب( تریپور) اورنابم توکی ( اروناچل پردیش) اورسابق گورنرتاملا سائی سواندراجین پہلے مرحلے کے انتخابات کی دوڑ میں شامل ہیں ۔

یوپی اے نے 2019 میں 102سیٹوں میں سے 45پر جیت حاصل کی تھی اور این ڈی اے نے 41سیٹیں حاصل کی تھیں ۔ ان میں سے چھ حد بندی کی مشق کے حصہ کے طور پرتیار کی گئی ہیں ۔ رائے دہی تاملناڈو (39)اتراکھنڈ(5)اروناچل پردیش(2)میگھالیہ (2)انڈومان نیکوبار(1)میزورم (1)ناگالینڈ(1) پانڈیچری(1)سکم(1) اورلکشادیپ(1)کے لئے ہوگی ۔

اس کے علاوہ راجستھان میں (12)اترپردیش (8) مدھیہ پردیش (6)آسام اور مہارشٹرا میں فی کس 5سیٹوں ‘ بہار میں 4مغربی بنگال میں 3منی پور میں 2اور تریپورہ ‘ جموں کشمیر اور چھتیس گڑھ میں فی کس ایک ‘ ایک سیٹ پر بھی پہلے مرحلے میں رائے دہی عمل میں ائیگی ۔

ان حلقوں میں اتھارٹیز نے رائے دہی سے 48گھنٹے قبل کوئی بھی باہر کا آدمی موجود نہیں رہے کو یقینی بنانے کی ہدایت دی ہے ۔

سیاسی جماعتوں کی جانب کسی بھی قسم کی انتخابی مہم ‘ عوامی جلسہ عام ‘الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پریس کانفرنس‘ انٹرویوز‘ اور پینل مباحثہ پر سخت پابندی عائد کردی گئی ہے ۔

چیف منسٹر تاملناڈو اور ڈی ایم کے سربراہ ایم کے اسٹالن نے انتخابی مہم کے آخری دن مذکورہ رائے دہی کو ’’ دوسری جدوجہد آزادی ‘‘ سے تعبیر کیاہے اور اعادہ کیاکہ یہ الیکشن کس کو اقتدار سے ہٹنا چاہئے اس بات کا فیصلہ کریگا ۔

کانگریس قائدین پرینکا گاندھی واڈرا ‘ او رسماج وادی پارٹی صدر اکھیلیش یادو نے اترپردیش کے سہارنپور اور مراد آبادی میں چہارشنبہ کے روز ریالیوں سے خطاب کیا ۔

چھتیس گڑھ کے ماءوسٹ زدہ علاقے بستر میں پہلے مرحلے میں رائے دہی ہوگی جہاں پر سکیورٹی فورسیس نے 29ماءوسٹوں بشمول سینئر کیڈرس کو منگل کے روز کانکر ضلع میں گولی مار کر ڈھیرکردیاہے ۔ دوسرے مرحلے کی رائے دہی 13ریاستوں اور یونین ٹرٹیریز کے 89سیٹوں پر 26اپریل کے روز مقررہے ۔