لکھنو میں بین مذہبی شادی کو پولیس کو روکا دیا۔

,

   

لکھنو۔ پولیس نے لکھنو میں ایک بین مذہبی شادی کو روکا دیا‘ جو دونوں فریقین کی رضا مندی کے ساتھ انجام پارہی تھی‘ جس کی وجہہ سے مخالف تبدیلی مذہب قانون کے خلاف غصہ پیدا ہوا ہے۔

رسومات کے شروع ہونے سے عین قبل پولیس موقع پر پہنچ گئی۔نوجوان سافٹ ویر انجینئر معروف علی نے کہاکہ ”یہ ہو کیا رہا ہے اب۔ کیا شادی ہونا یہ نہیں ہونا اس بات کا فیصلہ پولیس کرے گی۔

عدالت نے فیصلہ کیاہے کہ بالغ جوڑے کو ایک ساتھ رہنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے مگراس قانون کے ساتھ پولیس طلب کررہی ہے“۔ دولہن کی ایک رشتہ دارسریش گپتا جو اتنی ہی مایوس ہے۔

انہوں نے کہاکہ”دونوں فیملیوں کی موجودگی میں شادی انجام پارہی تھی مگر پولیس نے رسومات کو روک دیا۔ مہمان کھانا کھائے بغیرہی چلے گئے۔ایک آزاد ہندوستان میں اس طرح کا واقعہ رونما ہونے کا ہم تصور نہیں کرسکتے“۔

ایک مسلم عالم جس نے اپنے نا م ظاہر کرنا نہیں چاہا ہے نے کہاکہ”ہمارے شکوک وشبہات بہت جلد یقین میں تبدیل ہوگئے۔ اب پولیس ریاست چلا رہی ہے اور اس نئے قانون کے ذریعہ ایک فرد کی آزادی کو پامال کیاجارہا ہے“۔

رپورٹس کے بموجب ہندومہاسبھا کے ایک ضلع صدر برجیش شکلا نے تحریری طور پر اس شادی کی شکایت کی تھی۔ چہارشنبہ کی رات کو پولیس تقریب گاہ پہنچ جہاں پر 22سالہ رینا گپتا کی شادی اپنے بچپن کے دوست 24سالہ محمد آصف کے ساتھ ہورہی تھی۔

شادی پہلے ہندورسومات کے ساتھ ہونا او رپھر بعد میں مسلم طریقے سے انجام پانا تھا۔ایڈیشنل ڈی سی پی (ساوتھ زون) سریش چندرا راؤت نے کہاکہ ”جب پولیس تقریب گاہ پہنچے‘انہیں پتہ چلا کہ ہندو ریتی رواج کے ساتھ شادی انجام پانے کی تیاری کی جارہی ہے۔

بعد میں مسلم طریقے سے شادی ہوگی۔مذکورہ شادی گھر والو ں کی رضامندی سے ہورہی تھی‘مگر تبدیلی مذہب کے بغیر منصوبہ بند مذہبی رسومات کی انجام دہی نہیں ہوسکتی ہے“۔

مذکورہ اے ڈی سی پی نے کہاکہ اترپردیش کے غیر قانونی مذہب کی تبدیلی قانون 2020کے تحت اس شادی کو روک دیاگیاہے‘ جس میں کہاگیاہے کہ راست یا بالراست کسی پر بھی تبدیلی مذہب کا دباؤ ڈالنا اور مذہب تبدیل کرنے کا کام نہیں کیاجاناچاہئے‘ اگر وہ دھوکہ سے کی شادی ہی کیو ں نہ ہو۔گھر والوں کی مرضی اس میں شامل تھی اس وجہہ سے کوئی ایف ائی آر درج نہیں کیاگیاہے۔

وجئے گپتا جو دولہن کے والد نے کہاکہ کوئی زبردستی کا تبدیلی مذہب نہیں کیاگیاہے اور دونوں کے گھر والوں نے اس پررضامندی ظاہر کی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ”میں واقف نہیں تھا‘ پولیس نے ہمیں بتایا کہ دونوں فریقین کی رضامندی کے بعد بھی ایک بین مذہبی شاد ی صرف ضلع مجسٹریٹ کی منظوری کے بعد ہی کی جاسکتی ہے“۔

رائنا اور محمد آصف ضلع مجسٹریٹ کو دی گئی جانکاری کی تاریخ کے دوماہ بعد ہی اب شاد ی کرسکتے ہیں۔