ملک کو پولیس اسٹیٹ میں بدلنے کی تیاری۔ میم افضل

,

   

این ائی اے کے اختیارات میں اضافہ او رامیت شاہ کی دھمکی ایک بڑے خطرہ کااشارہ
این ائی اے (قومی تحقیقاتی ایجنسی) ترمیم بل کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظوری مل چکی ہے۔

ضرورت کے مطابق ملک میں قانو ن بنائے جاتے ہیں اور ضرورت کے حساس سے اس میں ترمیم بھی ہوتی ہے لیکن جس طرح اس ترمیم کے ذریعہ این ائی اے کے اختیارات میں اضافہ کیاگیا ہے

اس کے پیش نظر اسے معمول کی ترمیم نہیں کہاجاسکتا ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ کسی بڑے منصوبہ کو ذہن میں رکھ کر پیش بندی کے طور پر یہ ترمیم کی گئی ہے اوریہ کسی طے شدہ حکمت عملی کاحصہ ہے۔

اس ترمیمی بل کی لوک سبھا او راجیہ سبھا میں کانگریس اور دوسری ہم خیال اپوزیشن پارٹیوں نے نہ صرف شدید مخالفت کی بلکہ یہ الزام بھی لگایاکہ حکومت اس ایجنسی کا سیاسی طور پر غلط استعمال کرکے ہندوستان کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

اس ترمیمی بل کا مسودہ این ائی اے کے سابق اسپیشل ڈائرکٹر این آرو اسن نے تیا ر کیاہے۔ ترمیمی بل کی اہمیت اور افادیت کا ذکر کرتے ہوئے انہو ں نے کہاکہ امریکہ 26/11کے ممبئی حملوں کے معاملہ میں ڈیوڈ ہیڈلی کو اس لئے سزا دینے میں کامیاب ہوا کیونکہ ان کے پاس یہ قانون موجود تھاکہ

کسی دوسرے ملک میں ہوئے دہشت گردانہ حملہ میں وہ معاملہ درج کرسکیں۔ قابل ذکر ہے کہ ممبئی حملوں میں امریکی شہری بھی مارے گئے تھے۔

مسٹر واسن کہتے ہیں کہ این ائی اے کے پاس اس طرح کی کوئی طاقت نہیں تھی گویا موجودہ ترمیم کے بعد اسے غیرملکی سرزمین پر بھی تفتیش کرنے اور ملزمان کے خلاف کاروائی کے اختیار مل جائے گا۔

بلاشبہ یہ اچھی بات ہے۔

ایجنسی کو بااختیار اور طاقتور بنانے پر بھلا کسے اعتراض ہوسکتا ہے لیکن بات یہیں تک محدود نہیں ہے اسے اور دوسرے اختیارات دئیے گئے ہیں

اور اگران اختیارات کاصحیح اور شفاف طریقہ سے استعمال نہیں ہوا تو پھر یہ طئے ہے کہ ٹاڈا‘ پوٹا او رمکوکا کی طرح ان اختیارت کا غلط استعمال بھی ایجنسیاں اقلیتوں او ردلتوں او رمحرم طبقات کے خلاف دھڑلے سے کرے گی اور تب اگر اس کی مخالفت بھی کی جائے گی تو اس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہوگا۔

کیونکہ اس صورت میں ایجنسی اپنے اختیارات کا حوالہ دے گی۔

اس ترمیم کے ذریعہ این ائی اے کو ایک بڑا اختیار یہ دیاگیاہے کہ وہ ملک کے کسی بھی حصہ میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کے خلاف اپنے طور پر فیصلہ لے کر کاروائی کرنے کی مجاز ہوگی کسی بھی ریاست میں داخل ہونے کی اسے مکمل آزادی ہوگی‘

اس کے لئے اسے متعلقہ ریاستی حکومت سے اجازت لینے کی بھی ضرورت نہ ہوگی او راسے معاملہ کی تفتیش کرنے او رلوگوں کوگرفتار کرنے کا اختیار بھی ہوگا۔کانگریس اور دوسری پارٹیوں کو درحقیقت اسی پہلو پر اعتراض تھا۔

ان کی طرف سے اس خدشہ کا اظہار کیاگیا کہ اسیا کرنے سے ایجنسی شتر بے مہار ہوجائے گی۔ وزیرداخلہ کی حیثیت سے امت شاہ نے لوک سبھا میں نہ صرف اس بل کو وقت کی ضرورت قراردیا بلکہ یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ اس قانون کا کبھی غلط استعمال نییں ہوگا او ربلالحاظ مذہب وقوم اس کا استعمال دہشت گری کے خاتمہ کے لئے کیاجائے گا۔

لیکن کیا واقعی اس بل کو لانے کے پیچھے حقیقی منشاء یہی ہے؟۔ نہیں شاید نہیں۔ اس روز امت شاہ کی طویل تقریر کے بعد لوک سبھا میں جب بی جے پی کے

ایک ممبر بل کی حمایت میں قصیدہ خوانی کررہے تھے تو ایک مسلم ممبر نے این ائی اے کی غیر جانب داری پر سوال اٹھاتے ہوئے ان سے یہ پوچھا کہ مکہ مسجد دھماکہ میں ملزمین کی رہائی کو این ائی چیلنج کیوں نہیں کررہا ہے؟۔

تو بی جے پی کے مذکورہ ممبر نے یہ الزام لگایا کہ ملزمین(سب مسلمان تھے)کی رہائی کے لئے ریاستی وزیراعلی نے دباؤ ڈالا تھا تو مسلم ممبرنے اس کی مخالفت کی اور کہاکہ یہ جھوٹ ہے۔

پھر کیوں تھا کہ امت شاہ جی غصہ میں کھڑے ہوگئے اور انہوں نے اس ممبر پارلیمنٹ کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے یہ نصیحت کی کہ وہ سچ سننے کی عادت ڈالیں۔

واضح ہوکہ سمجھوتا ایکسپرس بم دھماکہ میں سوامی آسیما آنند کو گرفتار کیاگیاتھا جس نے بعد میں ایک مجسٹریٹ کے حضور میں اپنا حلفیہ بیان قلمبندکروایاتھا اور نہ صرف ملہ مسجد اور اجمیر بم دھماکہ میں ملوث ہونے کی ذمہ داری قبول کی تھی

اس حلفیہ بیان کے بعد آسیما آنند کو مکہ مسجد دھماکہ میں ملزم بنایاگیاتھا اور اس الزام میں گرفتار تمام مسلم نوجوانوں کو ضمانت پر رہا کردیاگیاتھا مگر اب سوامی آسیما آنند بھی رہا ہوچکا ہے اور این ائی اے نے اس کی رہائی کو با تک چیلنج نہیں کیاہے۔

مذکورہ مسلم ممبر نے اسی پس منظر میں اپنا سوال کیاتھا۔ایسے میں ضروری ہے کہ ہم غافل نہ بیٹھیں بلکہ اپنے اور خاندا ن کے وسرے لوگوں کی شہریت سے متعلق تمام ضروری غذات تیار کروالیں‘

اس لئے کہ ملک کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کرنے کی پوری تیاری ہوچکی ہے۔ جس میں حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کا کسی کو حق حاصل نہ ہوگا۔

ان اصل نشانہ مسلمانوں گے‘ امیت شاہ نے غیرقانونی شہریوں کی جو اصطلاح استعمال کی ہے اس سے مراد مسلمان ہیں دوسری شہری نہیں۔