پیگاسیس جاسوسی ایپ کا استعمال کانگریس۔ جے ڈی (ایس) حکومت کو گرانے میں کیاگیا

,

   

حیدرآباد۔ایک حیرت انگیز معاملے کی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ اسرائیل نژاد این ایس او گروپ کے جاسوسی ایپ کا استعمال کرناٹک کی سابق کانگریس۔جی ڈی (ایس) حکومت کو گرانے میں کیاگیاہے۔

ایسی جانکاری ملی ہے کہ جولائی2019میں ڈپٹی چیف منسٹر جی پرمیشوار اور چیف منسٹر ایچ ڈی کمارا سوامی کے پرسنل سکریٹریز اور سابق چیف منسٹر سدارامیا کے فوان نمبرات کو امکانی نشانہ بنانے کے لئے منتخب کیاگیاتھا۔

دی وائر کے فون نمبرات کی ریکارڈ کی جانچ کے مطابق‘ اس بات کی جانکاری ملی ہے کہ کرناٹک میں کچھ اہم سیاسی کھلاڑیوں کا انتخاب اس وقت میں کیاگیاتھا جب 2019میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور جنتادل سکیولر‘ کانگریس کی زیر قیادت حکومت کے درمیان جدوجہد چل رہی تھی۔

بعدازاں مذکورہ اتحاد سے 17 اراکین اسمبلی کے استعفیٰ دینے کے بعد اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کی ضرورت پڑی جس میں بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی تھی۔

مذکورہ نمبرات جس کی تفصیلات منکشف ہوئی ہیں فرانس میڈیا‘ غیر منافع بخش ممنوعہ کہانیا ں تحریر کرنے والے ادارے کی رسائی میں ائیں اور اس کو انٹرنیشنل میڈیا ادارے کو ایک حصہ کے طور پر شیئر کی گئیں جس کو پیگاسیس پراجکٹ کا حصہ قراردیاجاتا ہے۔

این ایس او اپنے جاسوسی ایپ کی فروخت کرتا ہے جس کا استعمال ہندوستانی قانون کے تحت ایک اسمارٹ فون کو ہیک کرنے والے جرائم میں ملوث ہونے پر کیاجاتا ہے‘ جو صرف حکومتوں کے لئے ہے۔ نہ تو این ایس او ر نے ہی مودی حکومت نے ہندوستان کے کسٹمر ہونے کی بات کا انکار کیاہے۔

دی وائر کی ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ”اس مدت کو بھی زیر غور کیاجانا ہے جس میں راہول گاندھی نے اپنے پرانے نمبر کو جس کا وہ استعال کررہے تھے نئے نمبر کا انتخابات کیاتھا‘ 2018سے بھی اہم جاسوسی ہداف کی فہرست میں شامل تھا“‘ وائر نے پیگاسیس کے استعمال میں اپنی تحقیقات کے متعلق سب سے پہلے اسٹوری دی تھی‘ یہ وہ جاسوسی ایپ ہے جو اسرائیل نژاد این ایس او گروپ حکومتوں کو ہی فروخت کرتا ہے۔

تاہم دی وائر کی رپورٹ میں یہ بھی کہاگیاہے کہ عصری فارنسک کی عدم موجودگی میں اس بات کو قطعیت نہیں دی جاسکتی کہ آیا یہ کرناٹک سیاست سے متعلق فونس ”ایک حملے کی کوشش سے منسوب متاثر ہیں“۔ مگر امکانی ناموں کی نگرانی کے لئے انتخاب کا وقت اہم ہے۔

کانگریس اورجے ڈی (ایس) دونوں ہی نے اس وقت مرکزی کی بی جے پی حکومت جس کو وزیراعظم نریندر مودی چلارہے ہیں‘ ان کی پارٹی کے اراکین اسمبلی کی بولی لگاکر اتحادی حکومت کو گرانے کے پس پردہ شامل ہیں۔

اس خرید وفروخت کو ’اپریشن لوٹس‘ کا نام دیاگیا ہے‘ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے پہلی مرتبہ اس اصطلاح کا استعمال کرتے ہوئے اشارہ دیاکہ بی جے پی مبینہ طور پر جمہوری منتخب حکومت کو بیدخل کرنے کی کوششیں کررہی ہے(لوٹس بی جے پی انتخابی نشان ہے)۔

دی وائر کی مذکورہ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ”منظرعام پر آنے والی تفصیلات کے لئے گئے جائزہ میں‘ دی وائر کو دوفون نمبرات کے متعلق جانکاری ملی ہے کہ وہ ستیش‘ اس وقت کے چیف منسٹر ایچ ڈی کمارسوامی کے پرسنل سکریٹری کا ہے‘ جس کو نشانہ بنانے کے لئے2019میں منتخب کیاگیاتھا‘ یہ وہ ایک وقت ہے جب کانگریس او رجے ڈی ایس باغیوں کو جیتنے کی جدوجہد کررہے تھے۔

جب دی وائیر ے انکشاف ہوئے فہرست میں موجودگی کے معتلق جانکاری پر بات کرنے کے لئے ان تک پہنچی تو انہوں نے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا مگر تصدیق کی ہے کہ وہ 2019میں اس فون نمبر کا استعمال کرتے تھے“۔

اس میں مزید کہاگیا ہے کہ کانگریس کے سابق چیف منسٹر سدارامیا کے ہرسنل سکریٹری وینکٹیش کا نمبر بھی اس وقت کے دوران شامل کیاگیاتھا۔ دی وائر سے بات کرتے ہوئے 27سال سے زائد عرصہ سے سدارامیہ کے ساتھ رہنے والے وینکٹیش نے منظرعام پر آنے والے ریکارڈ میں موجود فونمبر کے استعمال کرنے کی تصدیق کی اور ان پر رکھی جانے والے نگرانی کی توقع کا بھی اظہار کیا۔

انہوں نے کہاکہ ”میں نہیں جانتا کہ آیا میرے فون نمبر کی جاسوسی کی گئی ہے یا نہیں۔ میں صرف اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ میں نے کوئی غیرقانونی کام نہیں کیاہے۔

اگر ہم جو کچھ بھی دعوی کررہے ہیں وہ درست ہے تو میں اس طرح کے اقدامات کی سختی کے ساتھ مذمت کرتاہوں“۔ تاہم انہوں نے دی وائر کی جانب سے ان کے فون کی فارنسک جانچ کی پیش کردہ پیشکش کو ٹھکرادیا او رکہاکہ رازداری کا معاملہ ہے۔

مذکورہ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ ”ان ہی خطوط پر کانگریس کے برسراقتدار ڈپٹی چیف منسٹر جی پرمیشوارا کا نمبر بھی سیاسی تنازعہ کے وسط کے دوران اہم امیدوارکے طور پر منتخب کیاگیاتھا۔

جب وائر نے ان سے ربط کیاتو انہوں نے 2019میں منتخب فون نمبر کے استعمال کی تصدیق کی مگرکئی سے اس کا استعمال بند کردیاہے“۔