کانگریس میں خلاء

,

   

پیس وپیش اور شکست کی وجہہ سے مذکورہ پارٹی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔

نئی دہلی۔کانگریس ورکنگ کمیٹی سے راہول گاندھی نے پارٹی کی شکست کی ذمہ داری کو تسلیم کرتے ہوئے مئی 25کے روز پارٹی صدر کی حیثیت سے اپنا استعفیٰ پیش کرنے کی بات کہی اب 65دن ہوگئے ہیں۔

گاندھی کو جولائی3کے روز اپنے آخری پریس کانفرنس کے ذریعہ استعفیٰ کے فیصلے کو عوام کے درمیان میں لئے 25دن ہوگئے ہیں۔

یہ وہ راستہ تھا جس کے ذریعہ انہیں دوبارہ فیصلے پر نظر ثانی کرنے کے استفسار پر کرنے اور پارٹی کو انہیں عہدے پر برقرار رہنے کے دباؤ سے روکا جائے۔

کانگریس کی تاریخ میں اعلی قیادت میں اس قدر خلاء کبھی دیکھنے کو نہیں ملا او روہ اتنی طویل مدت تک کانگریس میں اس طرح کے حالات نہیں رہے۔

فیصلہ سازی کے موجودہ ڈھانچہ میں غیریقینی صورتحال برقرار ہے۔ عہدیدار ان کا نامزدگی کانگریس صدر کے طور پر کی جارہی ہے مگر کوئی صدر نہیں ہے۔

مزید نمایاں طور پر کسی متبادل کے نہ ہونے سے مزید سیاسی اثرات پڑتے ہیں۔ سال2019میں ہوئی شکست کا بھی کوئی جائزہ نہیں لیاگیا۔

پارلیمنٹ میں کانگریس غیر موثر ثابت ہورہی ہے جبکہ حکومت بہت سارے قوانین کو دور رس اثرات کے ساتھ آگے بڑھارہی ہے۔

کرناٹک میں کانگریس‘ جنتادل(سکیولر) حکومت گر گئی‘ او رساتھ ہی مسٹر گاندھی نے مفادات حاصلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ٹوئٹ حکومت کو نشانہ بنایاگیا۔

یہ داخلی مخالفتوں کا اعتراف تھا جس میں ریاستی حکومت کو غیرمستحکم کردیا ہے۔ریاستی یونٹس میں داخلی خلفشار پھوٹ پڑا ہے۔

پارٹی کو پانچ ریاستوں کے مجوزہ اسمبلی انتخابات کی تیاری کرنا ہے۔

مہارشٹرا‘ جھارکھنڈ‘ ہریانہ‘ جموں اور کشمری اور دہلی جہاں اگلے چھ سے اٹھ ماہ میں الیکشن ہوں گے۔مگر کانگریس میں بے حد موقع پرستوں نے کامیابی کی توقعات کو ختم کردیاہے۔

اور اس سے زیادہ اہمیت کا حامل ایک سیاسی پارٹی کا زمینی سطح کا کارکن نہ صرف تصادم کا شکار ہے بلکہ وہ مستقبل کی توقعات کو بھی نہیں دیکھ رہا ہے۔

اور بغیر امید ہے کہ سیاسی فروغ یقینی طور پر مشکل ہے۔ اترپردیش کے سونبھدرا میں پرینکا گاندھی کی جانب سے متاثرین کو اظہاریگانگت کے سوائے اپوزیشن کے طو رپر پارٹی کا کوئی کام نہیں ہے۔

اگلے صدر کے لئے فیصلہ ساز مذکورہ سی ڈبلیو سی کی اب تک اجلاس نہیں ہوا ہے۔

کئی نام گشت کررہے ہیں‘ مگر سینئر ایسا لگ رہے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے تاکہ نوجوان کو موقع فراہم کرسکیں‘ یا پھر شمالی اور جنوبی لیڈر کا انتخاب کیاجارہا ہے یاپھر ذات پات کا عنصر اس میں شامل ہوگا۔

اس پر بھی اب تک کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ نہرو گاندھی آخری کار صدر کا انتخاب کرے گی یا پھر مسٹر گاندھی نے جیسا اپنے نوٹ میں کہا ہے وہ اس عمل سے دور رہے گی۔

ان تمام باتوں کو ملحوظ رکھیں تو یہ بات صاف ہے کہ ہندوستان کی سب سے قدیم پارٹی جو شدید بحران کا سامنا ہے‘ وہ شکست اور پس وپیش کی وجہہ سے مفلوج ہوگئی ہے۔

جب تک تیزی سے کام نہیں کیاجاتا مذکورہ آگے کی سڑک اندھیرے کاشکار ہوتی رہے گی۔