گولیوں سے زخمی فیروزآباد کے مزید دو لوگوں کی موت‘ ائی جی کا کہناہے کہ پولیس نے گولی نہیں چلائی

,

   

اگرہ۔فیروز آباد میں 20ڈسمبر کے روز سی اے اے کے خلاف احتجاج کے دوران گولیاں لگنے کی وجہہ سے زخمی ہونے والے مزید دو لوگ جمعرات کے روز دہلی کے اسپتالوں میں زخموں سے جانبرنہ ہوسکے۔

اسی کے ساتھ ریاست بھر میں احتجاج کے دوران مرنے والوں کی تعداد 23تک پہنچ گئی ہے۔چالیس سالہ محمد شفیق کو دہلی کے صفدر جنگ اسپتال میں 24ڈسمبر کے روز منتقل کیاگیاتھا وہیں 33سالہ محمد ہارون کو چہارشنبہ کے روز اے ائی ائی ایم ایس ٹروما سنٹر میں شریک کیاگیاتھا۔

تازہ اموات کے بعد بھی انسپکٹر جنرل (اگرہ رینج) ستیش گنیش دعوی کررہے ہیں کہ پولیس نے احتجاجیوں پر ایک بھی گولی نہیں چلا ئی ہے۔

اے ائی ائی ایم ایس ٹراوما سنٹر کے ایک ڈاکٹر نے کہاکہ ”ہارون گردن میں گولی لگنے کی وجہہ سے زخمی تھے اور انہیں فیروز آباد سے یہاں منتقل کیاگیاتھا اور علاج کے دوران جمعرات کے روز ان کی موت ہوگئی“۔

صفدر جنگ اسپتال کے ایک سینئر ڈاکٹر نے کہاکہ جمعرات کے روز شفیق کی بھی موت ہوگئی ہے۔

ناگلاہ ملاح کی رہنے والی مذکورہ ہارون کی فیملی کا پہلے ہی دعوی کیاہے کہ شفیق کو اس وقت چہرے پر گولی ماری گئی جب وہ میویشیوں کی مارکٹ جہاں پر وہ اپنی بھینسیں فروخت کرنے گیا تھا‘ وہاں سے واپس لوٹ رہاتھا۔

گولی لگنے کے بعد وہ زمین پر گر اور پولیس کی خوف سے بھاگ رہے ہجوم نے اسکو روندیاتھا۔ قلب کی حرکت متاثر ہونے کے لئے سر میں بھی گہری چوٹیں ائی تھیں۔

ہارون کے ایک رشتہ دار ذکی شیخ نے کہاکہ ”چھ گھنٹے لگے ہارون کو اگرہ کے خانگی اسپتال میں داخل کرانے کے لئے‘ ایس این میڈیکل کالج کے بشمول کوئی بھی اس کو طبی نگہداشت کے لئے تیار نہیں تھا“۔

ذکی شیخ نے کہاکہ ”بعدازاں پیر کی رات مذکورہ اسپتال نے ہارون کو دہلی لے جانے کے لئے کہا او رہم اس کو جمعرات کی روز12:55کو اے ائی ائی ایم ایس لے کر آئے“۔

ایس این میڈیکل کالج چیف سپریڈنٹ ایس کے مجمدار نے کہاکہ ”فیروزآباد سے جملہ اٹھ مریض ہمارے یہاں شریک ہیں‘ جس میں سے دو کا اپریشن ہمارے ڈاکٹرس نے کیاہے۔

ہمارے اسپتال میں مریضوں کی بھاری بھیڑ جمع ہونے کی وجہہ سے علاج میں تاخیر ہورہی ہے“۔

درایں اثناء شفیق کے بھائی نثار نے کہاکہ ”رسول پورہ پولیس حدود میں آنے والے محلمہ مسرور گنج کی ہمارے اسکرپ کی دوکان کے بلکل سامنے اس کو پولیس والوں نے گولی ماری“۔

نثار نے کہاکہ ”جیسے ہی تشدد برپا ہوا‘ شفیق نے تمام گھر والوں کو اندر بھیج دیا۔ اس کے بعد وہ ہماری اسکرپ کی دوکان طرف موڑا‘ اسی وقت شفیق کو گولی لگی۔ فیروز آباد کے قریبی اسپتال میں ہم اس کولے کر گئے‘ جس نے اس کا علاج کرنے سے انکار کردیا اور ہمیں اگرہ جانے کے لئے کہا‘ وہاں پر ابتدائی تشخیص ہی کی گئی۔

ہفتہ کے روز اس کو صفدر جنگ اسپتال لایاگیا مگر جمعرات کی سہ پہر تین بجے وہ زخمو ں سے جانبرنہ ہوسکا“۔

انسپکٹر جنرل(اگرہ رینج) ستیش گنیش نے کہاکہ ”پولیس نے ڈسمبر20کے تشدد کے دوران کسی پربھی ایک گولی نہیں چلائی ہے۔

تاہم 233آنسو گیس کے شل اور 58ربر کی گولیاں ہجوم کو منتشر کرنے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔ ہم تمام کی پوسٹ رپورٹ کا انتظار کررہے ہیں۔ اس کے بعد جانچ کے ذریعہ ہم خلاصہ کرسکتے ہیں کہ انہیں کس نے ماراہے۔