ہمیں بری تو کردیاگیا ہے کہ ہمارے (23) سال کون واپس لوٹائیں گے۔

,

   

پیر کے روز جب انہیں بری کیاگیاتو اس وقت ہائی کورٹ نے کہاکہ پراسکیویشن سازش پرشواہد پیش کرنے میں ناکام ہوگیا۔ اس نے کہاکہ پراسکیویشن اصلی ملزم ڈاکٹر عبدالحمید جس کو سنائی گئی سزائے موت پر روک لگایا ہے کہ کے بری کئے گئے لوگوں کے درمیان رابطے کو قائم کرنے میں پوری طرح ناکام رہا ہے۔

جئے پور۔ مطلع صاف تھا‘ مگر پہلی مرتبہ دوہوں کے بعد وہ بادلوں کے سایہ نہیں تھے‘ کیونکہ منگل کے روز جئے پور سنٹرل جیل کے باہر قدم رکھا تھا‘ ایک دن قبل ہی 1996کے ساملیتی دھماکہ معاملہ میں راجستھان ہائی کورٹ نے انہیں بری کردیاتھا۔

منگل کے روز5:19بجے 42سالہ لطیف احمد بجاج‘ 48سالہ علی بھٹ‘ 39سالہ مرزا نثار‘ 57سالہ عبدالغنی اور 56سالہ رائیس بیگ نے جیل سے باہر قدم رکھاتھا۔

بیگ 8جون1997سے قید میں تھی جبکہ دیگر 17جون1996اور27جون 1996سے قید کی زندگی گذار رہے تھے۔

اس دوران انہیں دہلی او راحمد آباد کی جیلوں میں قید رکھا گیا‘ مگر انہیں نہ تو پیرول پررہائی ملی اور نہ ہی ضمانت دی گئی تھی۔پیر کے روز جب انہیں بری کیاگیاتو اس وقت ہائی کورٹ نے کہاکہ پراسکیویشن سازش پرشواہد پیش کرنے میں ناکام ہوگیا۔

اس نے کہاکہ پراسکیویشن اصلی ملزم ڈاکٹر عبدالحمید جس کو سنائی گئی سزائے موت پر روک لگایا ہے کہ کے بری کئے گئے لوگوں کے درمیان رابطے کو قائم کرنے میں پوری طرح ناکام رہا ہے۔

منگل کے روزرہائی کے بعد مذکورہ پانچ لوگوں نے کہاکہ جب تک کریمنل تحقیقاتی محکمہ(کرائم برانچ) نے انہیں اس کیس میں مجرم نہیں بنایاتھا اس سے قبل وہ ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں تھے۔

وہیں بیک آگرہ کے رہنے والے تھا جبکہ غنی کا تعلق جموں کشمیر کے دوڈا ضلع سے تھااور باقی کے دیگر جموں کشمیر سے تھے۔

جیل جانے سے قبل بھٹ کا کارپٹ کا روبار تھا‘ باجا دہلی اور کھنمنڈو میں کشمیری ہینڈی کرافٹ کاسامان فروخت کیاکرتے تھے‘ نثار نویں جماعت کاطالب علم تھا اور غنی ایک اسکول چلاتے تھے۔

غنی نے کہاکہ ”ہم ایسے دنیا میں قدم رکھنے جارہے تھے جس کے متعلق ہمیں کچھ معلوم نہیں تھا۔ جب ہم جیل میں تھے ہم نے اپنے رشتہ داروں کو کھودیا۔ میری والدہ‘ والد اور دو چچاؤں کی موت ہوگئی۔ ہمیں رہائی مل گئی ہے‘ مگر وہ سال کون ہمیں واپس لوٹائیں گے“۔

بیگ نے مزیدکہاکہ ان کی بہن کی شادی ہوئی تھی اور اب بھانجی بھی شادی کے قابل ہوگئی ہے۔کچھ لوگ ان سے گلے مل کررونے لگے۔

ایک ان کا بیٹا رضوان اور دوسرے ان کا بھائی سلیم تھا۔ آپ انسو ؤں کوروکنے کی کوشش کرتے ہوئے سلیم نے کہاکہ ”ان تمام سالوں میں ہم نے امید کا دامن کبھی نہیں چھوڑا“۔

نثار نے کہاکہ ”پچھلی رات ہم نے نہ تو کچھ کھایا اور نہ ہی نیند لی۔امید اور کاغذی کام‘ ایسا لگ رہا تھا کہ کبھی ختم نہیں ہوگا“۔

ان کا دعوی ہے کہ جب انہیں ملزم بنایاگیا وہ اس وقت محض16سال کے تھے مگر عہدیداروں نے ان کی عمر 19سال دیکھائی گئی۔

اب وہ 39سال کے انہوں نے کہاکہ شادی کرنا چاہتے ہیں تاکہ شروع سے زندگی گذار سکیں۔باجا نے کہاکہ ان کی اب تک شادی نہیں ہوئی ہے مگر پھر اپنے گنجا سر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تشویش ظاہر کی کہ انہیں دولہن کیسے ملے گی۔

مذکورہ شخص سل فون کے استعمال کے لئے مدد کا استفسار کیاتاکہ اپنے رشتہ داروں سے بات کرسکے۔چاروں جماعت اسلامی ہند کے دفتر کی طرف روانہ ہوگئے‘

جس نے ان کی رہائی میں اہم رول ادا کیاہے۔انہیں کھانا کی پیشکش کی گئی مگر آزادی کے ذائقہ نے ان کی بھوک ختم کردی تھی۔

اپنے اردگر د شورشرابہ دیکھتے ہوئے باجا نے کہاکہ اب بھی کیاہورہا ہے اس کا احساس کرنے کی کوشش کرہے ہیں۔

جیل میں گذارے گئے ایام کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ وہ او رنثار ہر روز کثرت کرتے تھے۔ بھٹ قرآن کی تحریرکرتا اور اس کی کاپیاں سری نگر میں اپنے گھر روانہ کرتے تھے۔

جموں سے فون پر بات کرتے ہوئے غنی کی 62سالہ بہن سورایا نے کہاکہ ”اس کی جوانی گذر گئی‘ ہمارے والدین کا انتقال ہوگیا‘ میرے آنسو سوکھ گئے اور روتے روتے ہم بوڑھے ہوگئے“۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ”کل سے میرے دل کی دھڑکن بڑھ گئی ہے۔مجھ کچھ او ردن کا موقع دیں‘ پہلے اس کو گھر آجانے دیں‘

میں ہر چیز آپ کو بتاؤں گی“۔مذکورہ معاملہ 22مئی 1996کا ہے جب اگرہ‘ جئے پور ہائی وے پر داؤ سا کا ساملیتی گاؤں کے قریب ایک بس میں دھماکہ پیش آیاتھا‘ جس میں چودہ لوگوں کی موت اور37لوگ زخمی ہوگئے تھے‘

مذکورہ بس اگر ہ سے بیکانیر کی طرف جارہی تھی۔

یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیاجب ایک روز قبل دہلی میں لاج پت نگر میں بم دھماکہ ہوا تھا جس میں تیرہ لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔

چارج شیٹ میں کہاگیاتھا کہ مذکورہ لوگوں کا تعلق جموں کشمیر لبریشن فرنٹ سے ہے اور یہ بھی دعوی کیاگیاتھا کہ ان میں سے کچھ لوگ سوائی مان سنگھ اسٹیڈیم‘ جئے پور میں 1996میں پیش ائے بم دھماکے میں بھی ملوث ہیں۔

رہا ہونے والے مذکورہ افراد کے وکیل شاہد حسین نے کہاکہ
بناء کسی تصدیق کی تمام لوگوں کے خلاف کئی مقدمات درج کردئے گئے۔

تمام مقدمات میں انہیں بری کردیاگیاہے مگر 23سال بعد“۔ تاخیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ 2011میں ہی اس پر سنوائی کی شروعات ہوئی۔

ساملیتی کیس میں وہیں بارہ لوگوں کوملزم بنایاگیاہے‘ اب تک اس میں سات لوگ بری کردئے گئے ہیں۔ سال 2014میں ایک کو بری کیاگیاتھا جبکہ چھ کومنگل کے روز بری کیاگیا۔

تاہم چھٹواں فرد جاوید خان جو تہاڑ جیل میں ہے لاج پت نگر بم دھماکہ معاملہ اب تک ملزم ہے۔ جبکہ دیگر جو ملزم تھے انہیں بری کردیاگیا ہے جبکہ ایک کی موت ہوگئی ہے۔

ہائی کورٹ کی جسٹس سبینا اور جسٹس گوردھن بردار نے ڈاکٹر عبدالحمید کو سنائی گئی سزائے موت اور پپو سلیم کو سنائی گئی عمر قید کی سزا کو روک لگایاہے