سروے۔دہلی کے81فیصد رائے دہندوں کو الیکشن کے دوران فرضی خبریں دستیاب ہوئیں

,

   

نئی دہلی۔پالیسی‘ سیاست‘ انسٹیٹیوٹ فار گورننس اور سوشیل میڈیا میٹرس کی غیر منافغ بخش ایک نئے سروے کے مطابق دہلی کی 81فیصد آبادی کواسمبلی انتخابات کے قریب میں مختلف سوشیل میڈیا ذرائع سے فرضی خبریں ملی ہیں۔ نتائج سے جو بات سامنے ائی ہے اس میں واضح طور پر سمجھ آرہا ہے کہ فیس بک اور واٹس ایپ سب سے مصروف ترین ایسے پلیٹ فارم رہے جہاں پر توڑ مروڑ اور غلط جانکاری پھیلائی گئی ہے۔

سروے کرنے والے ادارے کے بانی امیتابھ کمار نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ”فرضی خبروں کا رحجان جمہوریت کے لئے خطرہ ہے۔ جب رائے دہندے علمی تضاد کا شکار ہوں گے تو ان سے باخبر انتخابات کی کس طرح توقع کی جاسکتی ہے۔

بطور قوم ہمیں اس کو ختم کرنا ہماری ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے“۔دہلی اسمبلی الیکشن کا 8فبروری کو انعقاد عمل میں آیاتھا۔ نتائج 11فبروری کو برآمد ہوئے جس میں عام آدمی پارٹی نے 70میں سے 62سیٹوں پر دوبار ہ جیت حاصل کی اور اروندر کجریوال حکومت بھاری اکثریت سے جیت حاصل کرتے ہوئے دوبارہ اقتدار میں واپس لوٹی ہے۔

مذکورہ سروے’دہلی۔ ڈونڈ بی اے فول“میں 400لوگوں سے غلط جانکاریو ں کے متعلق سوشیل میڈیا پر انتخابات پر غلط خبریں پھیلاتی ہیں۔الیکشن کے پیش نظر فرضی خبریں پھیلائی گئی کہ جس میں شہریت ترمیمی قانون اور امکانی این آرسی کے خلاف شاہین باغ میں جاری احتجاج بھی شامل ہے وہاں پر دھرنے پر بیٹھی ہوئی خواتین کو پیسے دئے جارہے ہیں۔

اس سے زیادہ الیکشن سے قبل مشہور لوگوں کے ٹوئٹس ہیں۔ بی جے پی ترجمان سمبت پترا کی جانب سے کیاگیا ٹوئٹ جو ایک ویڈیوکلپ کے ساتھ تھا جس میں دعوی کیاگیا ہے کہ عآپ لیڈر امانت اللہ خان ”شرعی“ قانون بنانے کی بات کررہے ہیں۔

سروے میں شامل چالیس فیصد لو گ جو شامل ہوئے ان کی عمر18-25سال کی تھی۔وہیں 63فیصد لوگ جنھوں نے جواب دیا وہ مرد اور 36فیصد عورتیں اور ایک فیصد تیسری جنس تھی۔ تاہم سروے میں 60فیصدلوگوں نے اس بات کاانکشاف کیاہے کہ انہوں نے نیوز کی حقیقت جاننے کے لئے گوگل‘فیس بک او رٹوئٹرسے سرچ کرتے ہیں۔

تقریبا62.5فیصد لوگوں نے اپنے جواب میں کہاکہ وہ فرضی خبروں سے متاثرہوئے ہیں مگران میں سے 72فیصد کا کہنا ہے کہ وہ غلط جانکاری دینے والوں لوگوں سے واقف ہیں