سپریم کورٹ نے کہاکہ لکشمی پور کیس میں یوپی پولیس کی تحقیقات سے مطمئن نہیں

,

   

بنچ نے اسکو انتہائی سنگین جرم قراردیتے ہوئے استفسار کیاکہ اگر ایف ائی آر دیکھیں‘ دفعہ 302اس میں ہے‘ دوسرے ملزمین کے ساتھ بھی کیاآپ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔


نئی دہلی۔ جمعہ کے روز مذکورہ سپریم کورٹ نے کہاکہ وہ لکشمی پور تشدد معاملہ جس میں 3اکٹوبر کے روز8لوگ ہلاک ہوئے ہیں کہ اترپردیش حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات سے مطمئن نہیں ہے اور ایف ائی آر جن لوگوں پر درج کی گئی ہے ان کی عدم گرفتاری پر سوالات کھڑا کئے ہیں۔

چیف جسٹس این وی رمنا کی زیرقیادت ایک بنچ نے‘ یوپی حکومت کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل ہرش ساولے کو پولیس کے اعلی عہدیداروں سے رابطہ شواپد اور کیس کے متعلق مواد کو تباہ نہیں کیاگیاہیں اس کے متعلق رابطہ کریں۔

کیاپیغام آپ (ریاست) دینا چاہارہے ہیں‘بنچ نے کہاکہ‘ جو ہیماکوہلی اور سوریہ کانت پر مشتمل ہے۔ ریاست سے انہو ں نے استفسار کیاکہ ائی پی سی کی دفعہ 302(قتل) کے تحت درج مقدمات کے دیگر ملزمین کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیاجاتا ہے۔

بنچ نے اسکو انتہائی سنگین جرم قراردیتے ہوئے استفسار کیاکہ اگر ایف ائی آر دیکھیں‘ دفعہ 302اس میں ہے‘ دوسرے ملزمین کے ساتھ بھی کیاآپ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔مذکورہ عدالت عظمیٰ نے معاملے کی سنوائی20اکٹوبر کو رکھی ہے۔

کسانوں کے ایک گروپ جو مرکز کے تین زراعی قوانین کے خلاف احتجاج کررہا تھے اکٹوبر3کے روز یوپی کے ڈپٹی چیف منسٹر کیشو پرساد موریہ کے دورے کی مخالفت میں مظاہرہ کررہے تھے لکشمی پور کھیری میں ایک ایس یو وی کے نیچے آکر چار کسان ہلاک ہوگئے ہیں۔

بی جے پی کے دوکارکنوں اور ایک ڈرائیور کو برہم مظاہرین کے ہاتھوں مبینہ طور پر ہلاک ہوگئے‘ وہیں ایک مقامی صحافی بھی تشدد میں مارا گیاہے۔

ائی پی سی کی دفعہ 302کے تحت ایک ایف ائی آر مرکزی مملکتی وزیر داخلہ اجئے مشرا کے بیٹے اشیش مشرا اور دیگر پرٹیکونیا پولیس اسٹیشن میں درج کیاگیا ہے مگر اب تک کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں ائی ہے۔

کسانوں کے قائدین نے دعوی کیاہے کہ اشیش ان میں سے ایک کار میں موجود تھا جس نے مبینہ طور پر احتجاجیوں کو کچلا مگر منسٹر نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔

مرکزی حکومت کے خلاف مختلف کسانوں کی تنظیمیں 2020نومبر سے مرکز کے تین زراعی قوانین کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔

جنوری میں ان قوانین پر سپریم کورٹ نے روک لگادی ہے۔ ابتداء میں پچھلے سال احتجاج پنجاب سے شروع ہوا ہے اور بعد میں وہ دہلی‘ ہریانہ او راترپردیش تک پہنچ گیاہے۔