ناگپو یونیورسٹی کے نصاب میں آر ایس ایس کی شمولیت سے ایک نیا تنازع

,

   

ناگپور۔بی اے(تاریخ) سال دوم (چوتھے سمسٹر) کے نصاب میں راشٹرایہ سیوم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) کی تاریخ کو شامل کرتے ہوئے ناگپور یونیورسٹی نے ایک نیاتنازع کھڑا کردیاہے۔

تاہم یہ پہلا موقع نہیں ہے جس میں ناگپور یونیورسٹی میں سنگھ کی تاریخ کو متعارف کرنے کاکام کیاگیا ہے۔ سال2002سے ایم اے کے نصاب میں ’آرایس ایس‘ کے قومی تعمیر میں رول کے عنوان پر درسدیاجاتا رہا ہے۔

ناگپور یونیورسٹی کے شعبہ تعلیمات(بی او ایس) چیرمن برائے تاریخ شیام کوریٹی نے ٹی او ائی کو بتایا کہ مئی کے مہینے میں منعقدہ ایک اجلاس کے دوران آر ایس ایس کو نصاب کے لئحے متعارف کروانے کا فیصلہ لیاگیاتھا۔

انہو ں نے کہاکہ”ایم اے (تاریخ) میں پہلے سے مذکورہ مضمون پڑھایاجارہا ہے‘ ہم نے سونچا کہ بی اے کے نصاف میں اس کو شامل کریں گے تاکہ اسٹوڈنٹ کو تنظیم کے متعلق اس بات کوسمجھنے میں آسانی ہوسکے کہ ہندوستان کی آزاد ی سے قبل تنظیم کا کیارول رہا ہے۔

ہم دوسری تنظیموں کے رول جیسے گرودیو سیو ا منڈل اور ماترو سیو اسنگھ(ایم ایس ایس) جس کا تعلق ودربھا سے ہے جو بھی متعارف کروانے کے متعلق سونچ رہے ہیں۔ او ران کا تعلق بھی قومی تعمیر میں اہم ہے“۔

سابق مہارشٹرا پردیش کانگریس صدر اشوک چوہان نے یونیورسٹی کو دی گئی اپنی تجویز میں انتظامیہ سے کہاکہ وہ اسٹوڈنٹ کو یہ پڑھائیں کہ کس طرح آر ایس ایس نے شدت کے ساتھ’1942کی ہندوستان چھوڑ تحریک‘ کی مخالفت کی تھی اور دستور ہند اور قومی پرچم کو شدت کے ساتھ مسترد کردیاتھا۔

کانگریس ترجمان سچن ساونت نے اس اقدام کو ”غیر معمولی“ قراردیا اور ناگپور یونیورسٹی انتظامیہ پر آر ایس ایس کو فروغ دینے کا الزام بھی لگایا۔

انہو ں نے ٹی او ائی سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ”ہر کوئی جانتا ہے کہ سنگھ کی تاریخ ایک سیاہ باب ہے اور انہوں نے آزادی کے جدوجہد کے دوران انگریزوں کی مدد کی تھی۔

وہ آ رایس ایس ہی تھی جس نے دستور کی مخالفت کی تھی اور قومی پرچم کو بھی مستردکردیاتھا اور 52سالوں تک اپنے ہیڈکوارٹر پر قومی ترنگا بھی نہیں لہرایاتھا۔یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے منوسمرتی کو فروغ دیا تاکہ شہریوں کے درمیان میں نفرت کو بڑھاوا دیاجاسکے۔

ان تمام چیزوں کے سبب ہمارے آبا واجداد نے اس وقت سنگھ پر امتناع عائد کیاتھا“۔ ناگپور یونیورسٹی کے آرٹس ڈین پرمود شرما نے ٹی اوائی کو بتایاکہ ”یہ ایک غیر ضروری اقدام ہے“۔ مذکورہ نصابی کونسل نے بی او ایس کے نصاب کو منظوری دی تھی۔

یہ پچھلے پانچ چھ ماہ تیار ی کے عمل میں ہے۔ اب نہ تو انتظامیہ اور نہ ہی وی سی کے پاس اس کو ہٹانے کا اختیار ہے۔فیصلے مضامین کے ماہرین نے لیا ہے اور اس میں ہمارا کوئی رول نہیں ہے“۔

منگل کے روز ایک وفد نے نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا(این ایس یو ائی) نے وائس چانسلر ایس پی کانے سے ملاقات کی اور نصاب سے آر ایس ایس کے عنوان کو ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا۔ضلع صدر اشیشن مندپے‘ کارکن بشمول اجیت سنگھ‘ ابھیشک سنگھ‘ پرتک کولہی اور دیگر نے ناگپور یونیورسٹی سے وضاحت بھی مانگی ہے۔

ان کا کہناہے کہ سنگھ کی سونچ رکھنے والے ناتھو رام گوڈسے‘ مہاتما گاندھی کا قاتل ہے اور پھر اس طرح کی تنظیموں کو فروغ نہیں دینا چاہئے۔ان کے مطابق وی سی نے کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا وہیں کورتی اطمینان بخش جوابات دینے میں ناکام بھی رہے ہیں۔

مذکورہ این ایس یو ائی کے کارکنوں نے انتباہ دیا ہے کہ اگر متنازع مواد کو نہیں ہٹایاگیاتو وہ اپنے احتجاج میں شدت پیدا کریں گے۔

دیگر تنظیمیں جس میں شیواجی ودیارتی سینا بھی شامل ہے نے بھی ناگپور یونیورسٹی سے اسی طرح کی مانگ کی اور وائس چانسلر کو اپنی نمائندگی پیش کی ہے۔

اس کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس نے جنگ آزادی میں کوئی تعاون نہیں کیا۔

مگر اس کے لیڈر ونائیک دامودر ساورکر نے جیل سے باہر آنے کے لئے انگریزوں کو کئی مرتبہ معافی مانگی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ”آر ایس ایس کا حکومت میں کوئی رجسٹریشن نہیں ہے او راس کی تمام شاخیں غیرقانونی طریقے سے پولیس کی اجازت کے بغیر چلائی جاتی ہیں“