وزیراعظم نے ریمارکس نے تلنگانہ جذبات کو پھر ایک مرتبہ ابھار دیا

,

   

ٹی آرایس اورکانگریس دونوں ہی بی جے پی پر تلنگانہ کے ساتھ غداری کا الزام لگارہے ہیں اور اس کے ریاستی قائدین سے استفسار کررہے ہیں کہ وہ اس طرح ریاست کی عوام کے سامنے جائیں گے۔ سیاسی جانکاروں کا کہنا ہے کہ دونوں پارٹیوں کے حملے بی جے پی کے لئے مشکلات کھڑا کردیں گے۔


حیدرآباد۔پارلیمنٹ میں ریاست آندھرا پردیش کی تقسیم کولے کر وزیراعظم نریندر مودی کے تبصرے نے تلنگانہ میں ایک نئی سیاسی جنگ چھیڑ دی ہے‘ جس میں کانگریس اور اپوزیشن کانگریس دونوں ہی تلنگانہ جذبات کا ایک مرتبہ پھر فائدہ اٹھانے کی فراغ میں دیکھائی دے رہے ہیں۔

تلنگانہ راشٹریہ سمیتی (ٹی آر ایس) جس نے تلنگانہ جذبات کوحاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی اور 2014میں ریاست کی پہلی حکومت بن کر سامنے ائی ہے نے اس موقع پر فائدہ اٹھانے میں دیر نہیں کی ہے۔

مودی سے معافی کی مانگ کرتے ہوئے ریاست بھر میں احتجاجی مظاہروں سے لے کرپارلیمنٹ میں تحریک استحقاق کی پیشکش تک مذکورہ ٹی آر ایس نے کوئی بھی موقع گنوانا نہیں چاہا ہے۔

وزیراعظم نے اس تبصرے نے ٹی آر ایس کو موقع فراہم کیاکہ وہ ان پر حملہ کرکے جو مبینہ تلنگانہ کے ساتھ غیر جانبداری کے لئے کیاجارہا ہے اور بی جے پی کے ریاستی یونٹ کو بھی ایک کونے میں کرنے کا اس کو موقع مل گیاہے جو ریاست میں واحد متبادل کے طور پر خود کو پیش کررہے تھی۔کیونکہ وزیراعظم کے نشانے پر آندھرا پردیش کی تقسیم کس طرح کی جاتی ہے کو لے کرکانگریس نشانے پر تھی‘ مذکورہ اپوزیشن پارٹی اس کو اپنے موقع کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

مودی کو نشانہ بناتے ہوئے کانگریسی قائدین اس کو اس بات کے ثبوت کے طور پر پیش کررہے ہیں کے تلنگانہ ریاست کی تشکیل ان کی پارٹی کا ہی کارنامہ ہے۔

ٹی آرایس اورکانگریس دونوں ہی بی جے پی پر تلنگانہ کے ساتھ غداری کا الزام لگارہے ہیں اور اس کے ریاستی قائدین سے استفسار کررہے ہیں کہ وہ اس طرح ریاست کی عوام کے سامنے جائیں گے۔ سیاسی جانکاروں کا کہنا ہے کہ دونوں پارٹیوں کے حملے بی جے پی کے لئے مشکلات کھڑا کردیں گے۔

مودی نے فبروری 8کو ریاست کے تقسیم کے معاملے پر بات کرتے ہوئے کانگریس کو اس وقت نشانہ بنایاتھا جب راجیہ سبھا میں وہ صدراتی خطبہ کے حوالے سے تحریک شکریہ جاری بحث کا جواب دے رہے تھے۔

ازادی کی سونچ کے خلاف کانگریس پر کام کرنے کا انہوں نے الزام لگایاتھا۔ مودی نے کہاکہ ”غیرمنقسم ریاست (آندھرا پردیش) نے کانگریس کو مرکز میں حکومتبنانے میں کافی اہم رول ادا کیاتھا‘ مگر کانگریس نے بے رحمی کے ساتھ ریاست کی تقسیم کردی“۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ”مائیک بند کردئے گئے تھے اور مرچی پاؤڈر کا استعمال کیاجارہاتھا اور تقسیم ریاست کے بل کے لئے مباحثہ کے دوران کوئی راستہ نہیں تھا“۔

حالانکہ انہوں نے زوردیاکہ تلنگانہ کی تشکیل کے وہ خلاف نہیں تھے‘ ٹی آر ایس اورکانگریس دونوں بی جے پی پر علیحدہ ریاست تلنگانہ کے لئے اپنی جانوں کی قربانی دینے والے 1200ریاست کے نوجوانوں اور لوگوں کی توہین کا الزام لگانے میں دیر نہیں کی ہے۔

مذکورہ وزیراعظم نے کہاکہ اٹل بہاری واجپائی کی حکومت نے تلنگانہ ریاستیں (چھتیس گڑھ‘ جھارکھنڈ‘ او راتراکھنڈ) کی نہایت پرامن طریقے سے تشکیل عمل میں لائی تھی۔

مودی نے پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر میں کہاکہ دونوں ریاستیں کانگریس کے ریاست آندھرا پردیش کی تقسیم کس طرح کی ہے اس کی وجہہ سے پریشان ہیں۔

ٹی آر ایس اور کانگریس دونوں ہی مودی سے وضاحت مانگی کے واجپاٹی تلنگانہ ریاست کی تشکیل میں کیوں ناکام ہوگئے حالانکہ 1999انتخابات سے قبل بی جے پی ریاست کی تشکیل کا انہوں نے وعدہ کیاتھا۔

ریاستی وزیر اورٹی آر ایس کے کارگذار صدر کے ٹی راما راؤ نے یاد کرتے ہوئے کہاکہ ”مذکورہ بی جے پی نے 1998میں کاکینڈا میں ایک قرارداد کو منظور کرتے ہوئے ایک ووٹ کے لئے دوریاستوں کا وعدہ کیاتھا“۔