کشمیر میں تحدیدات ختم کرنے کے لئے مودی حکومت سے781سائنس دانوں اور ماہر تعلیمات نے دیا زور

,

   

ائی ائی ایس سی‘ ائی ائی ٹی‘ ٹی ائی ایف آر کے سائنس دانوں نے دو بیانات جاری کئے‘ ایک میں تعلیمی اداروں کی حالت زار کے متعلق تشویش ظاہر کی‘ دوسرا رہائشیوں کو درپیش مشکلات پر تکلیف کا اظہار کیاہے۔

بنگلورو۔ ہندوستان کے تقریبا780سے زائد اہم سائنس داں‘ محقیقن اور ماہر تعلیمات جو ائی ائی ٹیز‘ ائی ائی ایس سی سے تعلق رکھتے ہیں اپنے دوبیانات کے ذریعہ مودی حکومت سے استفسار کیاہے کہ وہ کشمیر میں تحدیدات کو ختم کریں۔

پہلابیان جو دی ہندومیں شائع ہوا تھا اس میں کشمیر میں تعلیمی اداروں پر تحدیدات کے اثرات کی طرف توجہہ دلائی گئی تھی۔

ابتدائی طور پردستخط کرنے والی چھ مشہور شخصیتیں بی اننت نارائن(انڈین انسٹیٹوٹ برائے سائنس بنگلورو)‘ گوتم مینن (اشوک یونیورسٹی سونی پت)‘ جینت مورتی(انڈین انسٹیٹوٹ برائے اسٹرو فزیکس‘ بنگلورو)‘ راہول سدھارتھن (انسٹیٹوٹ آف ریاضی سائنس‘ چینائی)‘

رتیکا سود(این ائی ایم ایچ ایے این ایس‘ بنگلورو)اور مکند تھاتھی (نیشنل سنٹر فار بائیولوجیکل سائنس‘ بنگلورو) جمعرات کے روز مزید 150لوگوں نے اس پر دستخط کی ہے۔

بیان کچھ اس طرح سے ہے کہ ”جبکہ تمام کشمیری رہائشی اپنے بات سنانے کے حق رکھتے ہیں‘ ہماری خواہش ہے کہ تعلیمی اداروں کی حالت زار کے متعلق اپنے تشویش کا اظہار کریں“۔

بیان میں مزیدکہاگیا ہے کہ ”مذکورہ یونیورسٹی برائے کشمیر کئی شاندار اسکالرس کا گھر ہے جسمیں نوجوان سائنس دا ں جو بیرونی ملک کے اداروں باوقار اداروں سے ہندوستان واپس لوٹیں ہیں تاکہ کشمیر اپنی لبریٹریز قائم کریں اور سائنس دانوں کی نوجوان نسل کو تربیت دیں‘

جس کے لئے حکومت ہند کے ادارے جیسے ڈی ایس ٹی(محکمہ سائنس اینڈ ٹکنالوجی) اور ڈی بی ٹی(محکمہ بائیو ٹکنالوجی) سے مدد لی اور انڈین الائنس کی قابل قدر فلو شپ اس میں شامل ہے۔

ایسے ریسرچ اسکالرس اور ان کے طلبہ دنیااو رانٹرنٹ سے الگ ہوگئے ہیں۔

آج کی دنیامیں انٹرنٹ بڑا ہتھیار ہے تاکہ ریسرچ سے جڑے رہیں“۔