مسلم رائے دہندوں نے ’تقسیم‘ کی سیاست کے خلاف ووٹ دیاہے

,

   

نئی دہلی۔ مسلم رائے دہندے جب ہفتہ کے روز اپنا حق رائے دہی کا استعمال کرنے کے لئے گھر سے باہر نکلے تو ان کے پیش نظر تین اہم عنصر ’حفاظت‘ امن اور ترقی‘ پیش نظر تھے۔

کمیونٹی کے بیشتر ممبران نے اس بات کو تسلیم کیاہے کہ انہوں نے نفرت کی سیاست کو شکست دینے کے لئے”حکمت عملی“ کے ساتھ ووٹ کیاہے‘ وہیں اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ عام آدمی پارٹی نے پچھلے پانچ سالوں میں ان کے اعتماد میں اضافہ کیاہے۔

زیادہ تر مسلم علاقوں جیسے چاندنی چوک‘ نارتھ ایسٹ اور ایسٹ دہلی میں عآپ واضح پسند کے طور پر ابھری ہے‘ بالخصوص عورتوں میں جو پارٹی کی حمایت برقی‘ پانی اور صحت عامہ کی سہولتیں رعایتی قیمت پر فراہم کرنے پر کررہی ہیں۔

نارتھ ایسٹ دہلی کے سلیم پورجہاں سے چودھری متین احمد کانگریس‘ عبدالرحمن عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کے امیدوار کوشل مشرا ہیں میں حق رائے دہی کااستعمال کرنے کے بعد فرحین نے کہاکہ”پچھلے پانچ سالوں میں یہاں پر صحت‘ تعلیم کے شعبہ کے بنیادی ڈھانچے میں قابل لہذا تبدیلیاں ائی ہیں۔

ہمارا ملک اس وقت مضبوط ہوسکتا ہے جب ایک تعلیم یافتہ حکومت رہے‘ جن کے ترجیحات عام لوگوں کی ترجمانی پر مشتمل ہوں“۔

تاہم کچھ لوگوں نے اشارہ دیاہے کہ شہریت (ترمیمی) قانون اور فرقہ واریت پر مشتمل مہم کی وجہہ سے کانگریس طرف کچھ حد تک لوگ مائل ہوئے ہیں‘ جس نے ”امتیاز ی سلوک“ پر مشتملق انون کے خلاف سخت موقف اختیار کیاہے۔

ایک او رووٹر41سالہ محمد یسین خان نے کہاکہ ”ہمیں فی الوقت ایک مضبوط لیڈر کی ضرورت ہے‘ جو ہماری آواز بننے کے لئے ڈرے نہیں۔بنیادی ضرورتوں پر توجہہ اہم ہے‘ مگر یہ لڑائی فی الحال بقاء کی ہے۔ہمیں ایک ایسے کی ضرورت ہے جو لاٹھیوں سے نہیں ڈرے“۔

سونچ کا فرق مردوں میں بھی واضح نظر آرہا ہے‘ اور ساتھ میں ان لوگوں میں بھی جو 30سے زائد عمر کے ہیں اور ”سیاسی تبدیلی“ کی حمایت کررہے ہیں۔

سیما پوری میں 24ّٓسالہ فیضان جو سیول سروسیس کی تیاری کررہا ہے نے کہاکہ ان کا ووٹ”کا قومی معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے“۔

انہوں نے مزید کہاکہ ”ہوسکتا ہے کہ ہم لوک سبھا کے لئے کوئی مقبول پارٹی کی حمایت کریں‘ مگر ان انتخابات میں صرف مقامی موضوعات اہمیت کے حامل ہیں۔ اور صرف ایک پارٹی نے ہی دہلی کے منصوبوں پر بات کی ہے“۔

بڑے پیمانے پر استحصال کے ماحول کو اجاگر کرنے کے بعد بھی امیدواروں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہڑا ہے۔

چاندنی چوک میں عآپ کے پرہلاد سنگھ سہاونے کے مقابل کانگریس کی الکا لامبا امیدوار تھیں جنھوں نے جامعہ مسجد پر سی اے اے کی حمایت میں منعقدہ ریالی میں شرکت کی اور بھیم آرمی کے صدر چندر شیکھر آزاد کی ستائش کی تھی۔

اور کچھ رائے دہندوں نے کہاکہ انہیں وہ تصویر اب بھی یاد ہے۔

بلی مارن میں سابق وزیرماحولیات عمران حسین کانگریس کے سینئر لیڈر ہارون یوسف کے مقابل تھے۔

سال 2015میں 60فیصد کے قریب ووٹ حاصل کرنے کے باوجود حسین کو امید ہے کہ پرانے دہلی میں وہ آگے ہیں جہاں پر کجریوال کے حامی بہت ہیں۔ مخالف سی اے اے احتجاج کے مرکزشاہین باغ میں تمام پانچ پولنگ اسٹیشنوں پر کو دہلی چیف الکٹرول افیسر نے ”حساس“ قراردیاتھا۔

اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنے کے گھنٹوں تک انتظار کرنے والے رائے دہندوں کا رحجان ووٹ دیتے وقت مخالف سی اے اے نہیں تھا بلکہ ان کا کہنا تھا کہ وہ ”ترقی“ کے نام پرووٹ دے رہے ہیں۔

پہلی مرتبہ ووٹ ڈالنے والی ندا شاہین نے کہاکہ ”عآپ نے سرکاری اسکولوں کی تعلیم کے معیار میں بہت بڑی تبدیلی لائی ہے صحت عامہ کے معاملے میں بھی بہت کام کیاہے‘

محلہ کلینک شاندار ہیں۔ کسی بھی ریاستی حکومت نے دہلی کے طرز پرکام نہیں کیاہے“۔ جامعہ نگر میں زبیدہ شیخ کی شاہین نے بھی یہی الفاظ دہرائے