شیشہ و تیشہ
انورؔ مسعوداے بسا آرزو…!روک دیتے ہیں اچانک مرے حالات مجھےمیری خواہش کبھی ہوتی بھی ہے پوری کوئیخود کْشی کرنے کا جس روز تہیہ کر لوںکام پڑ جاتا ہے اُس روز
انورؔ مسعوداے بسا آرزو…!روک دیتے ہیں اچانک مرے حالات مجھےمیری خواہش کبھی ہوتی بھی ہے پوری کوئیخود کْشی کرنے کا جس روز تہیہ کر لوںکام پڑ جاتا ہے اُس روز
قطب الدین قطب ؔبرتھ ڈے …!قسمت پہ چھائی دھند ہر لمحہ چھٹ رہی ہےزندگی بس یوں ہی غفلت میں کٹ رہی ہےہر برس برتھ ڈے مناتا ہے جب کہعمر بڑھ
محمد یوسف الدینآگیا پھر الکشن ارے دیکھنا !جن کی شۂ پر جلے گھر ارے دیکھناوہ اُڑارئیں کبوتر ارے دیکھناآگئے پھر یہ لیڈر ارے دیکھناحالت ان کی ہے ابتر ارے دیکھناہاتھ
مزمل گلریزؔتو چلوں …!!لیگ پیس ایک اور کھالوں تو چلوںآگ اپنے پیٹ کی بجھالوں تو چلوںعدم تشدد کا ہوں میں حامیڈانٹ بیوی کی کھالوں تو چلوںڈگمگاتے ہیں قدم مرے اِدھر
تحجمل اظہرؔقافیہ پیمائی …!شوقِ جنوں نے قافیہ پیمائی کرگئیاِس لیت و لعل ہی میں یہ شام و سحر گئیایسے بھی شاعروں کی ہے بہتات آج کلجو جانتے نہیں ہے کہاں
شاہد ریاض شاہدؔنیا سال مبارکلو جی غربت اور مہنگائی کا وبال آ گیاگندی سیاست کا ایک جھنجال آ گیابجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ لیے دوستو!ہر سال کی طرح پھر نیا
سید اعجاز احمد اعجازؔنیا سال …!ساری دنیا ہے خوش اب نئے سال میںکیک کاٹیں گے خود سب نئے سال میںناچنے میں بسر ہوگئی ساری شبسننے والا ہی ہے کب نئے
مزمل گلریزؔپیاز …!!ذائقہ سالن کا بڑھاتی ہے پیاززینت دسترخوان کی بڑھاتی ہے پیازامیر ہو کہ غریب سبھی کی ہے ضرورتمزدوروں کے ٹفن میں نظر آتی ہے پیازپیاز نہ کٹے تو
پاپولر میرٹھیسال بھر بعد !!چھ مہینے میں ہی یہ حال کیا بیوی نےسال بھر بعد تو شاید کبھی خوابوں میں ملیںاس طرح رکھتی ہے وہ ہم کو دبا کر گھر
وحید واجد (رائچور)اچھے دِنوہ جوانی کے ہائے اچھے دنہوگئے اب پرائے اچھے دنوہ بھی کیا دن تھے دورِ شاہی میںاب کہاں ہیں وہ ہائے اچھے دنمودی صاحب تو لے کے
انور مسعودخیر سے !آپ نے صورتِ احوال اگر پوچھی ہےہم بڑی موج میں ہیں آپ کو بتلاتے ہیںایسی برکت ہے کبھی گھر نہیں رہتا خالیکچھ نہ ہو گھر میں تو
دلاور فگاردعائے نجاتکسی شاعر نے اک محفل میں نوے شعر فرمائےردیف و قافیہ یہ تھا دعا کردے دوا کردےکہیں مقطع نہ پاکر اک سامع نے دعا مانگیالہ العالمیں اس قید
انورؔ مسعودفی الفور…!ابھی ڈیپو سے آجاتی ہے چینیگوالا گھر سے اپنے چل پڑا ہےحضور اب چائے پی کر جائیے گاملازم لکڑیاں لینے گیا ہے……………………………محمد امتیاز علی نصرتؔشاہ پرست…!لگاکر آگ شہر
مزمل گلریزؔآج بھی ہے …!!اچھے دنوں کا انتظار آج بھی ہےپچاس ہزار کیلئے سبھی بیقرار آج بھی ہےپہلے جو کھاتے تھے اس میں نہیں کوئی تبدیلیپیاز، روٹی اور اچار آج
انورؔ مسعودتسمہ پا…!اِن خدا کے بندوں نے، جانے کن زمانوں سےہر کنارِ دریا پر چوکڑی جمائی ہےخضر کا لڑکپن بھی اِن کے سامنے گزراٹول ٹیکس والوں نے کتنی عمر پائی
بابو اکیلاؔصدا …!!جُھٹپٹے وقت کا ہے سنّاٹاابر چھایا ہوا ہے ہلکا ساکس تکلف سے چل رہی ہے ہواجیسے کوئل کی وادیوں میں صدا…………………………فرید سحرؔمرجاتے ہیں …!!پیار اوروں سے جتاتے ہوئے
طالب خوندمیریسبب!!مادرِ لیلیٰ بھی گوری، باپ بھی گُل رنگ تھاوہ مگر کالی کلوٹی ، ہو بہو کوّا ہوئیقیسؔ نے اس کا سبب پوچھا تو لیلیٰ نے کہاکیا بتاؤں ، میں
محمد امتیاز علی نصرتؔیارب خیر ہو …!!جو ہیں اسرائیل میں مصروف جہادیا رب اُن اہل وفا کی خیر ہواُس کو پامالی کے خطرے سے بچاسر زمین ِ انبیاء کی خیر
غوث خواہ مخواہ ؔحیدرآبادیمیری بھی …!!کِتے دنوں سے دکنی کی حالت خراب ہےلگ را ہے جیسے اُس کی بھی صحت خراب ہےگِلیؔ، خطیبؔ اور بھلانواؔ بھی جا چکےمیری بھی ’’خواہ
انور مسعودکسوٹیہر شخص کو زبانِ فرنگی کے باٹ سےجو شخص تولتا ہے سو ہے وہ بھی آدمیافسر کو آج تک یہ خبر ہی نہیں ہوئیاْردو جو بولتا ہے سو ہے