شیشہ و تیشہ
محمد امتیاز علی نصرتؔیارب خیر ہو …!!جو ہیں اسرائیل میں مصروف جہادیا رب اُن اہل وفا کی خیر ہواُس کو پامالی کے خطرے سے بچاسر زمین ِ انبیاء کی خیر
محمد امتیاز علی نصرتؔیارب خیر ہو …!!جو ہیں اسرائیل میں مصروف جہادیا رب اُن اہل وفا کی خیر ہواُس کو پامالی کے خطرے سے بچاسر زمین ِ انبیاء کی خیر
غوث خواہ مخواہ ؔحیدرآبادیمیری بھی …!!کِتے دنوں سے دکنی کی حالت خراب ہےلگ را ہے جیسے اُس کی بھی صحت خراب ہےگِلیؔ، خطیبؔ اور بھلانواؔ بھی جا چکےمیری بھی ’’خواہ
انور مسعودکسوٹیہر شخص کو زبانِ فرنگی کے باٹ سےجو شخص تولتا ہے سو ہے وہ بھی آدمیافسر کو آج تک یہ خبر ہی نہیں ہوئیاْردو جو بولتا ہے سو ہے
لیڈر ؔ نرملیبے وفا…!اِک بے وفا جو پیار کے وعدہ سے پھرگیاخوابوں کا محل میرا کھڑے قد سے گِرگیاتاریخ ہے گواہ ، سچے عاشقوں کے ساتھجس نے کیا فراڈ ،
آخر کیوں ؟یہ لفافہ ، یہ ٹکٹ ، جھنجھٹ ہے اکپاؤں پوسٹ آفس میں آخر کیوں رکھیںگفتگو ہوجاتی ہے جب فون پرپھر یہ خط وط ، لیٹر ویٹر کیوں لکھیں……………………………ڈاکٹر
پاپولر میرٹھیعشق کا جوش !زبیدہ ، کرشمہ ، کرینہ ، نسیمہچلو اب سب کو دکھادو سینمامیری عمر کیا ہے یہ کیوں پوچھتی ہوکہیں عشق کا جوش ہوتا ہے دھیما…………………………ڈاکٹر سید
طالب خوندمیریپیاسی جنتا!!’’پیاسی جنتا کیلئے لاکھوں کنویں کھودیں گے ہمایک نیتا کا یہ وعدہ وجہِ حیرانی نہ تھاہاں! مگر جب اقتدار اُن کو مِلا تو یہ کُھلااُن کے کھودے ہر
انور شعورؔشعور کی باتیں !بینک در بینک اثاثے نہ بڑھائے ہوں گےہر بڑے شہر میں بنگلے نہ بنائے ہوں گےپُوری دنیا میں کہیں نعمت ایزادی سےیہ مزے اور کسی نے
پاپولر میرٹھیہوشیار ہوجاؤکسی جلسے میں ایک لیڈر نے یہ اعلان فرمایاہمارے منتری آنے کو ہیں بیدار ہو جاؤیکایک فلم کا نغمہ کہیں سے گونج اْٹھا تھا’’وطن کی آبرو خطرے میں
محمد امتیاز علی نصرتؔسارے جہاں سے اچھا!!ظلم و ستم کی زد میں نام و نشان ہمارابرباد ہو چکا ہے ہند میں امن و اماں ہماراکس منہ سے پڑھیں اقبالؔ یہ
انورؔ مسعودکنڈکٹر!رہے گا یاد فقط ایک کاغذی پُرزہبھرے جہاں میں پھر اور کچھ نہ سُوجھے گاعجیب دُشمنِ لطفِ سفر ہے کنڈکٹرمری رقم کا بقایا ٹکٹ پہ لکھ دے گا………………………………مرسلہ :
شبنمؔؔ کارواریمیرا کمرہ !!چوہے دانی کی طرح مجھ کو یہ گھر لگتا ہےمیرا کمرہ مجھے دلبر کی کمر لگتا ہےپھیل کے سونا تو ممکن ہی نہیں ہے اس میں‘‘ پاؤں
شاداب بے دھڑک مدراسیہنسنے کی مشق!دامانِ غم کو خون سے دھونا پڑا مجھےاشکوں کے موتیوں کو پرونا پڑا مجھےمیری ہنسی میں سب یونہی شامل نہیں ہوئےہنسنے کی مشق کے لئے
انور مسعوددردِ دلدل کی بیماری کے اِک ماہر سے پوچھا میں نے کلیہ مرض لگتا ہے کیوں کر آدمی کی جان کوڈاکٹر صاحب نے فرمایا توقف کے بغیر’’دردِ دل کے
انورؔ مسعودہتک…!کل قصائی سے کہا اِک مفلسِ بیمار نےآدھ پاؤ گوشت دیجئے مجھ کو یخنی کے لئےگْھور کر دیکھا اُسے قصاب نے کچھ اس طرحجیسے اُس نے چھیچھڑے مانگے ہوں
انور مسعودروشن خیالی!رہا کچھ بھی نہیں باقی وطن میںمگر اک خستہ حالی رہ گئی ہےترستی ہیں نگاہیں روشنی کوفقط روشن خیالی رہ گئی ہے…………………………احمد قاسمیبکراخواب میں جب سے آگیا بکرانیند
انور مسعودگیسجو چوٹ بھی لگی ہے وہ پہلے سے بڑھ کے تھیہر ضربِ کربناک پہ میں تِلمِلا اْٹھاپانی کا، رسوئی گیس کا، بجلی کا، فون کابِل اتنے مِل گئے ہیں
سرمد حسینی سرمدؔبدنظمیاںہمارے دور میں جو ہستیاں ہیںان ہی کے دم سے قائم بستیاں ہیںاب ہم پر اُنگلیاں اُٹھنے لگی ہیںمنظم قوم میں بدنظمیاں ہیں………………………………انورؔ مسعودٹیکسال…!ہے ایک چیزِ تیز میں
پاپولر میرٹھینازک دل !میں ہوں جس حال میں اے میرے صنم رہنے دےتیغ مت دے میرے ہاتھوں میں قلم رہنے دےمیں تو شاعر ہوں مرا دل ہے بہت ہی نازکمیں
پاپولر میرٹھیآپریشن !پاپولرؔ میرا تخلص ہے یہی اعجاز ہےمیرا جو بھی شعر ہے دنیا میں سرفراز ہےآپریشن خوب ہی مضمون کے کرتا ہوں میںذہن میرا نوکِ نشتر کی طرح ممتاز